الحمد للہ.
اول:
کسی مسلمان کیلئے کسی مسلمان پر بغیر حق کے بد دعا ناجائز ہے، بلکہ اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ دنیا یا آخرت میں اس پر مصیبت پڑنے کی تمنا ہی کرے۔
اور اگر اسکے مسلمان بھائی نے اس پر ظلم کیا ہو، یا برا سلوک کیا ہوا تو اتنی ہی بد دعا دے جتنا اُس نے اِس پر ظلم کیا ہے، اس سے آگے مت بڑھے، اور اگر اسکی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرے، اور درگزر سے کام لے تو یہ اسکے لئے زیادہ بہتر ہے، فرمان باری تعالی ہے:
( وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ )
ترجمہ: اور اگر تم نے [بدلے میں]سزا دینی ہے تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گئی ہے، اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کیلئے بہتر ہے۔ النحل/ 126
مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (106446) اور (129911) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
اگر مظلوم کی یہ خواہش ہو کہ ظالم پر بد دعا کرے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ اسکے اہل خانہ کیساتھ بد تمیزی کرےیا انکے خلاف بد دعا کرے، کیونکہ انہیں ظالم کی حرکتوں کی وجہ سے دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کسی قسم کے مؤاخذے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ابو داود (4495) اور نسائی (4832) میں ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں: "میں اپنے والد کیساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا: (یہ آپکا بیٹا ہے؟) انہوں نے کہا: جی ہاں! رب کعبہ کی قسم [یہ میرا بیٹا ہے]، تو آپ نے فرمایا: (خبردار! اسے تمہارے گناہ پر نہیں پکڑا جائے گا ، اور نہ ہی تمہیں اسکے گناہ پر پکڑا جائےگا)پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ترجمہ: "کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی"" اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
صاحب " عون المعبود " (11/176) کہتے ہیں:
حدیث کے الفاظ: (لَا تَجْنِي عَلَيْهِ) یعنی: تمہارے بیٹےپر جرم نہ کرو، "جنایہ" ایسے گناہ، اور جرم کو کہتے ہیں جو سزا یا قصاص کا موجب بنے، مطلب یہ ہے کہ تمہارے بیٹے سے تمہاری غلطی کا مؤاخذہ نہیں ہوگا، کیونکہ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والا اپنے اوپر ہی زیادتی کرتا ہے[اس لئے کہ جرم کی پاداش میں اسی کا مؤاخذہ ہوگا]، کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:(کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھاتی)، اس حدیث میں عرب کی غلط عادت کی تردید کی گئی ہےکہ ، جس میں باپ کو بیٹے کے کرتوت، یا بیٹے کو باپ کے کرتوت کی سزا دی جاتی تھی" انتہی
مزید دیکھیں سوال نمبر: (129911) کا جواب۔
سوم:
کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یا اسکے اہل خانہ پر ہلاکت کی بد دعا کرنا ، دعا میں زیادتی ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہے، بلکہ بد دعا جنگجو کفار، یا تمام حدیں پار کرنے والے فسادی مسلمان کے بارے میں ہی کی جاسکتی ہے، جس کے شر سے لوگ اسکی ہلاکت سے ہی محفوظ رہ سکتے ہوں۔
چہارم:
دعا کی قبولیت کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ کہ نیک صالح ہو، اگر چہ نیکی اور اچھائی قبولیت دعا کا ایک سبب ضرور ہے لیکن شرط نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی مظلوم کی بھی دعا قبول کرتا ہے، چاہے وہ نافرمان ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مظلوم کی بد دعا قبول ہوتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، اسکا فجور اسی کی جان پر ہوگا) اسے احمد (8781) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "صحيح الجامع" (3382) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر : (41114) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پنجم:
کسی پر بد دعا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسکی بد دعا قبول ہوجائے گی، خاص طور اگر بد دعا میں ظلم و زیادتی کا عنصر شامل ہو [تو بددعا قبول ہونے کے امکانات اور کم ہوجاتے ہیں] کیونکہ اللہ تعالی با حکمت اور انصاف کرنے والی ذات ہے، تو جس طرح اللہ تعالی کسی ظالمانہ فعل کو ناپسند کرتا ہے، اسی طرح مظلوم کی زیادتی اور اسراف کو بھی ناپسند کرتا ہے، کیونکہ یہ بھی ایک ظلم ہے۔
واللہ اعلم .