الحمد للہ.
اگر دوسرى نماز وقت كے اندر كرنے ميں كوئى حرج ہو تو مقيم شخص كے ليے نمازيں جمع كرنا جائز ہے، اور قصر كرنے سے جمع كرنا زيادہ اوسع ہے اس ليے مسافر كے علاوہ كوئى اور شخص قصر نہيں كرسكتا، ليكن اگر دوسرى نماز ادا كرنے ميں كوئى حرج اور تنگى ہوتى تو مقيم اور مسافر دونوں كے ليے جمع كرنا جائز ہے، چاہے وقت ميں يا جماعت كے ساتھ ہو يہ برابر ہے.
اس بنا پر اگر آپ كا ظن غالب يہ ہو كہ آپ سفر كى بنا پر نماز وقت كے اندر ادا نہيں كر سكيں گے تو آپ كے ليے عصر كى نماز مقدم كر كے اپنے شہر ميں ہى ظہر كے ساتھ ادا كرنا جائز ہے.
اور اگر ائرپورٹ آپ كى بستى اور شہر سے باہر تو آپ نماز قصر بھى كر سكتے ہيں، ليكن اگر آپ ائرپورٹ والے علاقہ كے رہائشى ہيں تو پھر نماز پورى ادا كريں قصر نہيں كر سكتے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مسئلہ:
اگر كوئى انسان قصيم ميں ہو اور وہ ائرپورٹ جائے تو كيا وہ ائرپورٹ پر نماز قصر كرے گا ؟
جواب:
جى ہاں قصر كرےگا؛ كيونكہ اس نے اپنى بستى كى آبادى كراس كر لى ہے كيونكہ ائرپورٹ كے ارد گرد جتنى بھى بستياں ہيں وہ ائرپورٹ سے عليحدہ ہيں ليكن جو شخص ائرپورٹ كے رہائشيوں ميں سے ہو وہ ائرپورٹ پر نماز قصر نہيں كرے گا؛ اس ليے كہ اس نے اپنى بستى نہيں چھوڑى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 514 ).
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مدينہ ميں ظہر اور عصر كى دونوں نمازيں بغير كسى خوف اور سفر كے جمع كر كے پڑھائيں.
ابو زبير كہتے ہيں ميں نے سعيد ـ يعنى ابن جبير ـ سے دريافت كيا آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيوں كيا ؟
تو ان كا جواب تھا: ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى اسى طرح دريافت كيا تھا جس طرح آپ نے مجھ سے سوال كيا ہے، تو انہوں نے فرمايا:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ وہ اپنى امت كو حرج اور مشكل ميں نہ ڈاليں.
صحيح مسلم حديث نمبر ( 705 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قصر كا خاص كر سبب سفر ہے، اس ليے سفر كے علاوہ قصر نہيں ہو سكتى، ليكن جمع كا سبب ضرورت اور عذر ہے، چنانچہ جب اس كى ضرورت ہو تو لمبے سفر ميں جمع اور قصر ہو سكتى ہے، اور اسى طرح بارش وغيرہ اور بيمارى وغيرہ يا دوسرے اسباب كى بنا پر نماز جمع ہو سكتى ہے، كيونكہ اس كا مقصد امت سے حرج كا خاتمہ ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 293 ) طبع مجمع ملك فھد
واللہ اعلم .