اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا مانى ہوئى نذر اس سے بہتر ميں بدلى جاسكتى ہے ؟

21350

تاریخ اشاعت : 23-12-2005

مشاہدات : 4562

سوال

كيا ميں اللہ تعالى كے ليے مانى ہوئى نذر كى جگہ اور چيز كو كسى اور ميں بدل سكتا ہوں، نذر ماننے كے بعد ميں نے ديكھا كہ دوسرى جگہ پہلى سے زيادہ حقدار اور افضل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں نذر كو اس سے بہتر اور افضل چيز ميں بدلنا جائز ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى " الاختيارات " ميں كہتے ہيں:

" اور جس شخص نے معين ( ايام ) كے روزے ركھنے كى نذر مانى تو وہ اس سے افضل زمانے ميں منتقل كرسكتا ہے" اھـ

ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 329 ).

اس كى مثال ايسے ہے كہ: اگر كسى نے منگل كا روزہ ركھنے كى نذر مانى تو اس كے ليے سوموار كا روزہ ركھنا جائز ہے كيونكہ يہ افضل ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے نذر كو اس سے بہتر اور افضل چيز ميں بدلنے كے بارہ ميں سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

" اصل تو يہى ہے كہ جب كسى انسان نے اپنى نذر كے ليے جگہ كى تعيين كرلى، مثلا اس نے صدقہ كرنے يا كسى معين جگہ ميں مسجد تعمير كرنے كى نذر مانى تو معين كردہ جگہ اور چيز ميں نذر پورى كرنى لازم ہے، جب تك اس ميں كوئى شرعى مانع نہ پايا جائے، ليكن يہ ہے كہ وہ اس سے بہتر اور افضل جگہ ميں تبديل كر سكتا ہے، مثلا حرمين شريفين ميں، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بوانہ جگہ ميں اونٹ قربان كرنے كى نذر ماننے والے شخص كو يہ فرمان ہے كہ:

" كيا وہاں جاہليت كے بتوں ميں سے كوئى بت تھا؟

تو اس شخص نے جواب ديا: نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا وہاں كوئى ميلہ ٹھيلہ لگتا تھا:

تو اس نے كہا نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو تم اپنى نذر پورى كرو "

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اسى جگہ نذر پورى كرنے كا حكم ديا جس كى اس نے نذر ميں تعيين كى تھى، كيونكہ وہ شرعى مانع سے خالى تھى، اور نذر كو افضل جگہ منتقل كر كے پورى كرنے كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بيت المقدس ميں نماز ادا كرنے كى نذر ماننے والے شخص كو يا فرمانا كہ:

" يہاں نماز ادا كرلو" اور اسے پھر دوبارہ فرمايا: " يہاں نماز ادا كرلو" اور پھر تيسرى بار فرمايا: " پھر تمہارى مرضى"

اسے ابوداود اور احمد رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے. اھـ .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب