منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

تعزیت کیلئے لوگوں کے اکٹھے ہونے کا کیا حکم ہے؟

215016

تاریخ اشاعت : 25-11-2014

مشاہدات : 22654

سوال

سوال: اہل میت کا تعزیت کیلئے آنے والوں سے ملنے کیلئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تعزیت کیلئے اکٹھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: اہل میت کسی جگہ پر اکٹھے ہو کر جمع ہو جائیں، اور جس نے تعزیت کیلئے آنا ہو وہ اسی جگہ پر پہنچ جائے، چاہے جمع ہونے کی جگہ اہل میت کے گھر میں ہو یا ایسے مواقع کیلئے تیار شدہ شامیانہ لگا کر جگہ تیار کی جائے۔

یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اہل علم کا اختلاف معتبر ہے، اور علمائے کرام اس بارے میں دو جہتوں میں منقسم ہیں:

پہلی جہت:

یہ علمائے کرام تعزیت کیلئے جمع ہونا جائز نہیں سمجھتے، انکے مطابق ایسے جمع ہونا مکروہ ہے، یہ موقف شافعی، حنبلی، اور بہت سے مالکی علمائے کرام کا ہے، اور کچھ نے اس عمل کے حرام ہونے کے بارے میں دو ٹوک الفاظ استعمال کئے ہیں۔

ان علمائے کرام کی مضبوط ترین دو دلیلیں ہیں:

1- جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ  کا اثر، وہ کہتے ہیں کہ: "ہم اہل میت  کیلئے اکٹھا ہونا ، اور دفن کرنے کے بعد کھانا بنانا نوحہ گری میں شمار کرتے تھے" احمد: (6866) ابن ماجہ: (1612)

2- یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں کیا، اور نہ ہی صحابہ کرام نے کیا، چنانچہ یہ کام خود ساختہ امور میں سے ہے، اور ایسا کام کرنے سے سلف صالحین کے طریقے کی مخالفت ہے، کیونکہ وہ تعزیت کیلئے اس طرح بیٹھے ہیں اور نہ ہی اکٹھے ہوئے ہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"میں ماتم یعنی اکٹھا ہونے کو مکروہ  سمجھتا ہوں، اگرچہ اس میں رونا شامل نہ بھی ہو [پھر بھی مکروہ جانتا ہوں]؛ کیونکہ اس طرح میت کا غم دوبارہ ہرا ہو جاتا ہے، اور اس میں پہلے سے موجود  اثرات [یعنی: ذہنی تناؤ] کے ساتھ ساتھ مزید خرچہ بھی ہوتا ہے" انتہی
"الأم" (1/318)

نووی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں امام شافعی اور  مصنف [یعنی امام شیرازی] و دیگر [شافعی]فقہائے کرام نے واضح لفظوں میں کراہت  کا حکم لگایا ہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ: انہیں [یعنی: اہل میت کو]چاہئے کہ اپنے کام کاج میں مصروف رہیں، جو انہیں مل جائے وہ ان کے ساتھ تعزیت کر لے، اس  تعزیت کیلئے بیٹھنے کے حکم میں مرد و خواتین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔" انتہی
"المجموع شرح المهذب" (5/306)

مرداوی رحمہ اللہ  کا کہنا ہے کہ:
"تعزیت کیلئے بیٹھنا مکروہ ہے، [شافعی ]  مذہب  یہی ہے، اور اسی کے اکثر [شافعی] فقہائے کرام  قائل ہیں، اور انہوں نے تعزیت  کیلئے بیٹھنے کے بارے میں واضح لفظوں میں یہی حکم لکھا ہے" انتہی
" الإنصاف" (2/ 565)

اور ابو بکر طرطوشی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"ہمارے مالکی علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: تعزیت کیلئے خصوصی  اہتمام کے ساتھ بیٹھنا بدعت اور مکروہ ہے، اور اگر اپنے گھر میں یا مسجد ہی میں بغیر کسی خصوصی اہتمام کے غمگین ہو کر بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہے کہ آپ نے جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دی اور پھر مسجد میں غمگین ہوکر بیٹھ گئے، اور لوگوں نے آپکی تعزیت  کی" انتہی
"الحوادث والبدع" (صفحہ:170)

اسی موقف کے مطابق شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ نے فتوی  دیا ہے، انکا کہنا ہے کہ:
"اہل میت کیلئے گھر میں جمع ہو کر  تعزیت کرنے والوں سے ملنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کچھ سلف  صالحین نے اسے نوحہ قرار دیا ہے، بلکہ اہل میت کو چاہئے کہ دروازے بند ہی رکھیں، اور جو کوئی بھی انہیں بازار یا مسجد میں ملے تو وہ انکی تعزیت کر لے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (17/ 103)

دوسری جہت:

یہ علمائے کرام تعزیت کیلئے اکٹھے ہونا، اور بیٹھنا  جائز سمجھتے ہیں ، بشرطیکہ تعزیت کی مجلس میں کوئی اور گناہ یا بدعت  کا ارتکاب نہ کیا جائے، ایسے ہی مجلس میں میت کے غم کو بار بار ہوا نہ دی جائے،  اور اہل میت کیلئے اس  میں کسی قسم کا بوجھ بھی نہ ہو۔
یہ موقف بعض حنفی، کچھ مالکی، اور چند حنبلی  علمائے کرام کا ہے۔
دیکھیں: "البحر الرائق" (2/207)  اور "مواهب الجليل" (2/230)

چنانچہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"تعزیت کیلئے تین دن تک بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کسی ممنوع کام کا ارتکاب نہ کیا جائے، مثلاً: اہل میت کی طرف سے دریاں بچھانا، اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا" انتہی
" البحر الرائق" (2/207)

یہی قول امام احمد سے حنبل اور خلّال کی ایک روایت میں منقول ہے۔

مرداوی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"[امام احمد]سے  اس میں رخصت بھی منقول ہے؛ کیونکہ انہوں نے خود تعزیت کی اور بیٹھے بھی ہیں، چنانچہ خلّال کہتے ہیں کہ: امام احمد نے اہل میت کیساتھ بیٹھنے میں کئی مقامات پر نرمی ظاہر کی ہے۔۔۔، اور انہی سے اہل میت کیساتھ بیٹھنے میں رخصت بھی منقول ہے،  امام احمد سے اس موقف کو حنبل نے نقل کیا ہے، اور مجد[ابن تیمیہ] نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
امام احمد ہی سے: اہل میت اور دیگر افراد کیلئے تعزیت  کرتے ہوئے بیٹھنے کی رخصت منقول ہے کہ کہیں [اہل میت کی ]اضطرابی حالت شدت اختیار نہ کر جائے " انتہی
"الإنصاف" (2/565)

ابن عبد البر رحمہ اللہ   "الكافی" (1/283) میں کہتے ہیں:
"مجھے امید ہے کہ تعزیت کیلئے بیٹھنے میں کچھ گنجائش ہوگی" انتہی

اس قو ل کو معاصر علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ  نے اختیار کیا ہے، جیسے کہ : "مجموع الفتاوى" (13/373) میں ہے، اور اسی کو شیخ محمد  مختار شنقیطی نے "سلسلۃ دروس شرح الزاد"  میں راجح قرار دیا ہے۔

اس موقف کے قائلین کی مضبوط ترین دلیلیں یہ ہیں:

1- ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث  ہے کہ اگر ان کے خاندان میں فوتیدگی ہو جاتی تو اس  گھر میں خواتین جمع  ہو کر  [تعزیت کرتیں اور ]پھر اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں، صرف میت کے گھر والے اور انتہائی قریبی لوگ  رہ جاتے، تو وہ تلبینہ [دلیہ] بنانے کا حکم کرتیں، تو دلیہ بنایا جاتا، اور پھر ثرید [چوری] بنا کر اس پر تلبینہ ڈال دیا جاتا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: اہل میت کی خواتین  کو اس میں سے کھانے  کا  کہتی، اور انہیں بتلاتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: (تلبینہ  مریض کے دل کی ڈھارس باندھنے کیلئے اچھا ہے، اس سے غم میں کچھ کمی آتی ہے) بخاری: (5417) مسلم: (3216)
"تلبینہ": سوپ کی طرح  ہوتا ہے، جو آٹے اور چھان سے بنایا جاتا ہے، بسا اوقات اس میں شہد ملایا جاتا ہے، اسے "تلبینہ" اس لئے کہتے ہیں کہ اسکا رنگ "لبن" دودھ جیسا سفید اور  دودھ ہی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔

چنانچہ اس حدیث میں  واضح دلالت ہے کہ صحابہ کرام اہل میت کے ہاں اکٹھے ہونے پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، چاہے اس اکٹھ میں صرف اہل میت ہوں یا دیگر افراد بھی شامل ہوں۔

2- ابو وائل کہتے ہیں کہ:
"جس وقت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو بنو مغیرہ کی خواتین خالد بن ولید پر روتی ہوئی  اکٹھی ہو گئیں، تو عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ: "آپ انکی طرف پیغام بھیج کر منع فرما دیں، تا کہ انکی طرف سے کوئی نا پسندیدہ  کام  آپکے سامنے رونما نہ ہو۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:  ابو سلیمان [خالد بن ولید کی کنیت] پر انکے آنسو بہانے سے کچھ نہیں  ہوگا، بشرطیکہ  سر پر مٹی نہ ڈالیں، اور آوازیں بلند نہ کریں"
ا س اثر کو ابن ابی شیبہ نے "المصنف" (3/ 290)   میں اور عبد الرزاق  صنعانی (3/ 558)  نے صحیح سند کیساتھ ذکر کیا ہے۔
اس اثر کے عربی متن میں مذکور لفظ: "النَّقْعُ" کا مطلب یہ ہے کہ: سر پر مٹی ڈالیں۔
"اللَّقْلَقَةُ" کہ اپنی آوازیں بلند نہ کریں، یا مٹی اپنے سروں پر ڈالیں۔

اس گروہ نے  جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے قول پر دو جواب دئیے ہیں:

پہلا جواب:
اس اثر کے بارے میں راجح یہ ہے کہ یہ قول سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، اس اثر کی سند کو امام احمد، اور دارقطنی نے  معلول قرار دیا ہے۔

چنانچہ احمد بن منیع نے اس اثر کو اپنی مسند میں، ابن ماجہ نے سنن (1612) میں، طبرانی نے  "المعجم الكبير" (2/307) میں  " هُشيم عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن قيس ، عن جرير " کی سند سے ذکر کیا ہے۔

یہ سند ظاہری طور پر  صحیح ہے، کیونکہ اس حدیث کے راوی بڑے بڑے حفاظ اور ثقہ ہیں، اسی لئے متعدد اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جن میں  درج ذیل  علمائے کرام شامل ہیں:
نووی  "المجموع" (5/320)  میں،  ابن كثير  "إرشاد الفقیہ" (1/241) میں ، بوصيری  نے "مصباح الزجاجۃ" (1/289)  میں ، شوكانی  نے "نيل الأوطار" (4/148)  میں، شيخ أحمد شاكر مسند  احمد کی تحقیق (11/126)  میں ، البانی  نے "أحكام الجنائز" (ص/210)  میں ، مسند أحمد (11/505) کے محققین   اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

لیکن حدیث میں ایک مخفی علت ہے، جسے حفاظ الحدیث اور ناقدین نے واضح کیا ہے، اور وہ ہے ہشیم بن بشیر کی تدلیس، کیونکہ ہشیم  ثقہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ تدلیس  اور ارسال میں ملوّث تھے، اور بسا اوقات یہ تدلیس اور ارسال  ضعیف اور مجہول قسم کے لوگوں  کے بارے میں کر جاتے تھے۔

چنانچہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  "تذكرة الحفاظ" (1/249) میں کہتے ہیں کہ:
"ہشیم  بلا نزاع  حفاظ اور ثقات میں سے ہے، لیکن بہت زیادہ تدلیس میں ملوّث ہے، کیونکہ انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کی ہے جن سے انہوں نے وہ روایات سنی نہیں ہیں" انتہی

اسی لئے کچھ متقدم حفاظ  حدیث نے جریر کے اس اثر کو ہشیم کی تدلیس کے باعث معلول قرار دیا ہے۔

چنانچہ  ابو داود کہتے ہیں کہ:
"میں نے امام احمد  سے : عن هُشَيْمٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ جَرِيرٍ  کی سند  سے  منقول اثر : "ہم اہل میت کے ہاں اکٹھا ہونا ، اور انکے لئے کھانا بنانا جاہلی امور میں شمار کیا کرتے تھے" کے بارے میں پوچھا۔
تو ابو داود نے کہا کہ میں نے امام احمد سے مزید کہا کہ : کہتے ہیں کہ ہشیم نے شریک سے سنا ہے؟!
تو امام احمد نے کہا کہ:  مجھے تو یہ اثر بے بنیاد [بلا سند]لگتا ہے" انتہی
"مسائل الإمام أحمد "  بروایت ابو  داود سجستانی  (صفحہ: 388)

اسی طرح امام دارقطنی کی "العلل" (13/462) میں  ایسی بات موجود ہے جس سے ہشیم کی تدلیس کا اشارہ ملتا ہے۔

چنانچہ اگر  جس راوی کی  بارے میں تدلیس کی گئی ہے وہ شریک بن عبد ا للہ نخعی کوفی قاضی  ہے تو یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ شریک  تمام محدثین کے ہاں "ضعیف الحدیث " ہے، اور ایسے راوی  کی ایسی انفرادی  حدیث کو قبول نہیں کیا جاتا  جس میں حرام یا حلال کا  شرعی حکم بیان کیا گیا ہو۔

ہاں ایک جگہ اس اثر کی متابعت نصر بن باب نے کی ہے، جیسے کہ مسند احمد (6905) میں ہے، لیکن نصر بن باب کے  متعلق "تعجيل المنفعة" (صفحہ/420) میں اسکے حالات زندگی  کے تحت لکھا ہے کہ:
"امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " يرمونه بالكذب " یعنی: محدثین  اس پر جھوٹے ہونے کا عیب  لگاتے ہیں۔
ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: " ليس حديثه بشيء "یعنی: اسکی احادیث کوئی حیثیت  نہیں رکھتیں۔
علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے  ہیں: " رميتُ حديثه "یعنی: میں نے اسکی احادیث مسترد کر دی تھیں
ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  کہتے ہیں: " متروك الحديث " یعنی: اسکی احادیث متروک ہیں۔
ابو خیثمہ زہیر بن حرب رحمہ اللہ  کہتے ہیں:  یہ کذاب تھا" انتہی

چنانچہ نصر کی متابعت کی وجہ سے شریک کی روایت حسن درجے تک بھی  نہیں پہنچتی، بلکہ یہاں بڑا قوی امکان ہے کہ  ہشیم کی روایت میں جس راوی کے بارے میں تدلیس کی گئی ہے وہ یہی نصر بن باب  ہی ہے، شریک نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

جریر بن عبد اللہ  البجلی رضی اللہ عنہ  کا قول کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اور ان سے مشہور روایت کو تدلیس کی وجہ سے معلول کہا گیا ہے۔

مزید تفصیلات کیلئے کتاب: " التجلية لحكم الجلوس للتعزية" از شيخ ظافر آل جبعان صفحہ: 27، ملاحظہ فرمائیں۔

دوسرا جواب:

اگر یہ اثر صحیح ثابت ہو بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ : اہل میت کے ہاں ایسا اجتماع منع ہے جس میں  اہل میت کی جانب سے تعزیت کیلئے آنے والوں  اور اہل میت کے ساتھ بیٹھنے والوں  کیلئے میت والے گھر کی طرف سے کھانا وغیرہ تیار کیا جائے۔

اسی لئے اس اثر میں دو چیزوں کا واضح لفظوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ: " [1]ہم اہل میت  کیلئے اکٹھا ہونا ، [2]اور دفن کرنے کے بعد کھانا بنانا نوحہ گری میں شمار کرتے تھے "
چنانچہ  ان دونوں  چیزوں کے جمع ہونے کو  نوحہ میں شمار کیا گیا ہے۔

چنانچہ [مذکورہ مفہوم کی تائید میں]شوکانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہو کر انکے پاس کھانا کھانے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، کیونکہ اس کی وجہ سے اہل میت پر بوجھ  آتا ہے، اور میت والوں کو گھر میں مرگ  کی وجہ سے  ذہنی تناؤ کے باوجود کھانے کے انتظام میں  مشغول  ہونا پڑتا ہے،  اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی نا فرمانی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اہل میت کیلئے کھانا بنائیں، لیکن [یہاں ایسی صورت حال بن جاتی ہے کہ]انہوں نے اُلٹا میت والوں کو اپنے لئے کھانا بنانے میں مصروف کر دیا" انتہی
" نيل الأوطار" (4/ 118)

اور شیخ  ابن باز رحمہ اللہ   کہتے ہیں :
"مطلب یہ ہے کہ [مر گ پر ]لوگ جمع ہو کر قرآن پڑھیں اور کھائیں پئیں، یہ بے دلیل عمل ہے، بلکہ یہ بدعت ہے،  ہاں اگر کوئی  انسان انہیں ملنے آئے  سلام کرے اور آ کر انکے لئے دعائیہ کلمات کہے، اور انکی تعزیت کرے ،  اور لوگوں  کے اجتماع کو دیکھ کر ایک یا زائد آیات پڑھ کر لوگوں کو کوئی نصیحت بھی کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن  اہل میت  لوگوں کو جمع کریں، یا قرآن پڑھنے والے خاص قسم کے لوگوں کو بلائیں ، انہیں کھلائیں ، پلائیں، انہیں پیسے دیں تو یہ بدعت ہے، اسکی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " (14/ 202)

جبکہ  یہ کہنا کہ تعزیت کیلئے اکٹھے ہونے  کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں کیا، آپ کے صحابہ کرام نے بھی نہیں کیا اس لئے یہ خود ساختہ بدعات میں سے ہے تو اسکا جواب درج ذیل سے دیا جاسکتا ہے:

- تعزیت کیلئے اکٹھے ہونا عادات میں سے ہے، عبادات میں سے نہیں ہے، اور عادات میں بدعات کا تصور نہیں ہوتا، بلکہ عادات کے بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ عادات اصل میں  جائز ہوتی ہیں۔

- تعزیت کرنا  شرعی طور پر مطلوب ہے، اور آج کل تعزیت  اسی انداز سے ہو سکتی ہے کہ تعزیت کرنے والوں کیلئے ایک وقت  اور جگہ کا تعین کر کے  سب کو بلا لیا جائے، اس طرح سے تعزیت کی سنت ادا کرنے میں سہولت ہوگی۔

شیخ  ابن باز رحمہ اللہ سے  تعزیت کرنے والوں کا استقبال  اور تعزیت کیلئے بیٹھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسے شخص کے بارے میں ، میں کوئی حرج نہیں سمجھتا  جس شخص کا کوئی قریبی رشتہ دار یا بیوی وغیرہ فوت ہو جائے، کہ وہ اپنے گھر ایک مناسب وقت  میں تعزیت کا ٹائم  دے کر  تعزیت کرنے والوں کو ملے؛ کیونکہ تعزیت کرنا سنت ہے، اور تعزیت کرنے کیلئے آنیوالوں کو ملنا   اس سنت کو ادا کرنے کیلئے مدد گار ثابت ہوتا ہے، اور اگر تعزیت کرنے والوں کیلئے قہوہ، چائے،  یا خوشبو لگا کر [مختصر سی مہمان نوازی کی جائے ]تو یہ بھی اچھا ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ومقالات "از ابن باز رحمہ اللہ  (13/373)

شیخ صالح آل شیخ  کہتے ہیں کہ:
"ہم نے اس ملک  اور دیگر ممالک کے علمائے کرام کو دیکھا ہے  کہ وہ تعزیت کیلئے بیٹھا کرتے تھے؛ کیونکہ اسی میں فائدہ ہے، اس لئے کہ اگر تعزیت کیلئے نہ بیٹھا جائے تو سنتِ تعزیت ہی فوت ہو جائے گی" انتہی
ماخوذ از ویب سائٹ:

http://saleh.af.org.sa/node/42 

اور اگر ہم تعزیت کیلئے بیٹھنے کو مکروہ بھی سمجھیں تو کراہت  ضرورت کے وقت زائل ہو جاتی ہے، اور یہ علمائے کرام کے ہاں مشہور اصول ہے، چنانچہ  آج کل تعزیت کیلئے  بیٹھنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ تعزیت کیلئے بیٹھنے کی وجہ سے تعزیت کیلئے آنیوالوں کو بھی آسانی ہوتی ہے، اور انہیں کسی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کے رشتہ دار اور اولاد مختلف جگہوں میں ہوں، یا ایک ہی شہر کے مختلف علاقوں میں رہتے ہوں  تو تعزیت کرنے والوں کیلئے سب کے پاس ایک ایک کر کے جانا بڑی مشقت کا باعث ہوگا۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے جب تعزیت کیلئے بیٹھنے  کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے بھی اسی  سبب کو مدّ نظر رکھتے  ہوئے بیٹھنے کو جائز قرار دیا، اور کہا کہ:
"لوگوں کو تعزیت کیلئے موقع فراہم کرنے کیلئے اگر اہل میت ایک جگہ بیٹھ جاتے ہیں تو اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے، تا کہ لوگوں کو میت  کے ہر ایک رشتہ دار سے الگ الگ ملنے کیلئے مشقت نہ اٹھانی  پڑے، لیکن ایک شرط ہے کہ اہل میت لوگوں کیلئے کھانا تیار نہ کریں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (13/382)

اور شیخ محمد مختار شنقیطی  کہتے ہیں کہ:
"سلف اس کام سے روکتے تھے، امام مالک رحمہ اللہ  اس بارے میں سختی کیساتھ روکتے اور منع کرتے تھے، چنانچہ سلف صالحین کا عمل اسی پر تھا، لیکن کچھ متأخرین فقہاء اور علماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ آج کل ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ : پہلے لوگوں کی اتنی تعداد نہیں  ہوتی تھی، اس لئے  میت کے تمام اہل خانہ کو ایک ہی مسجد میں ملنا ممکن ہوتا تھا، انہیں آپ کہیں بھی راستے میں آتے جاتے بھی دیکھ سکتے تھے، لوگ اتنے کم تھے کہ مصروف ترین راستے میں بھی آپ ان سے مل  کر تعزیت کر سکتے تھے، تعزیت کا معاملہ بڑا آسان تھا، بلکہ  کوئی بھی فوت ہوتا تو سب کے سب  لوگوں کو پتہ چل جاتا اور تمام کے تمام لوگ  اس کے جنازے اور تدفین میں شریک ہوتے، اس طرح سے تعزیت کرنا اُس وقت بہت آسان تھا۔

لیکن آج کل آبادی بہت پھیل چکی ہے، اور آپ کیلئے  میت کے ہر رشتہ دار  کے گھر میں جا کر ملنا  بہت مشکل ہے، اس کیلئے کتنی مشقت برداشت کرنی پڑے گی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے؛ اس لئے اگر تمام رشتہ دار کسی ایک   گھر میں جمع ہو جائیں، تو لوگوں کیلئے اس میں بہت سہولت ہوگی، جس سے تعزیت کے تمام مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے کہ سب کو دلاسہ مل سکے گا؛ اسی لئے متأخرین نے یہ فتوی دیا ہے کہ تعزیت کیلئے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں  ہے، اور اسے نوحہ میں شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ شرعی عمل تصور ہوگا، کیونکہ اسکی آج کل کے دور میں ضرورت ہے" انتہی
"سلسلة دروس شرح الزاد" (86/ 16) شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق۔

اور بہت سے علمائے کرام نے تعزیت کیلئے ایک جگہ جمع ہونے کو غلط قرار دیا ہے ، کیونکہ عام طور پر ایسے مواقع میں بدعات اور منکرات پائی جاتیں ہیں، چنانچہ اگر  تعزیت کیلئے جمع ہوتے ہوئے کسی بدعت یا گناہ کا ارتکاب  نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

چنانچہ شمس الدین منبجی حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اکٹھے ہو کر اہل میت کیلئے صبر، قضائے الہی پر رضا مندی، اور دیگر نصیحتیں  کرنے کا  موقع  ملے ، اور اس انداز سے اہل میت کو زیادہ تسلّی  ملنے کا امکان ہو کہ صبر پر مشتمل آیات اور احادیث انہیں پڑھ کر سنائی جائیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ تعزیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے۔

لیکن ہمارے زمانے میں جس انداز سے لوگ تعزیت کیلئے بیٹھتے ہیں کہ اس میں قرآن خوانی کی جائے، بسا اوقات قبر  کے پاس بیٹھ کر، اور کبھی میت کے گھر میں ، اور کبھی بڑی بڑی محفلوں میں جو قرآن خوانی کی جاتی ہے، یہ بالکل  خود ساختہ بدعت ہے، سلف  اسے مکروہ سمجھتے تھے" انتہی
ماخوذ از: " تسلیۃ  أهل المصائب " (صفحہ: 121)

خلاصہ یہ ہوا کہ :

تعزیت کیلئے منکرات سے بچ کر بیٹھنا ایسا  مسئلہ ہے جس میں اختلاف ہے، اور یہ مسئلہ محل  نظر  بھی ہے، لیکن اس میں گنجائش ہے، جبکہ منکرات اور بدعات کی موجودگی میں  تعزیت کیلئے بیٹھنا  بالکل ممنوع  ہے۔

چنانچہ اگر  تعزیت کیلئے اجتماع اور مجلس لگانا منکرات سے خالی ہو، تو اسے جائز سمجھنے والے علمائے کرام کے دلائل  زیادہ صحیح ، اور واضح دلالت والے ہیں، جبکہ منع  قرار دینے والے علمائے کرام کے  دلائل ضعیف آثار ہیں، ان میں سے کوئی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مرفوعا ثابت نہیں ہے، ایسے ہی ان آثار کی دلالت بھی احتمال رکھتی ہے ٹھوس دلالت نہیں ہے، کیونکہ ان آثار سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان میں تعزیت کیلئے بیٹھنے سے ممانعت نہیں ہے، بلکہ اہل میت کو لوگوں کیلئے کھانا  بنانے کی  زحمت دینے سے ممانعت ہے، اس لئے کہ اہل میت ایک تو مرگ کی وجہ سے مشغول ہیں [اور اوپر سے تعزیت کیلئے آنے والے لوگوں کیلئے کھانا تیار کرنے کی نئی مصیبت ہو]۔

یہ بات بھی عیاں ہے کہ تعزیت کیلئے جمع ہونے  کے بارے میں جواز کا موقف  سب کیلئے آسانی اور مشقت زائل کرنے کا باعث بھی ہے، اور خصوصی طور پر ایسے لوگوں کیلئے  جو انتہائی مصروف رہتے ہیں ، اور فراغت کا وقت سب کا الگ الگ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں کچھ ایسی عادات اپنانی پڑتی ہیں جو انکی زندگی کو مزید منظم بنانے کیلئے مدد گار ثابت ہوں، اور انہی عادات میں یہ بھی شامل ہے کہ  مرگ کی صورت میں لوگوں کی طرف سے  تعزیتی پیغام  ایک ہی جگہ پر جمع ہو کر وصول کیا جائے، اسکی وجہ سے تعزیت کرنے والے لوگ میت کے رشتہ داروں کو الگ الگ تلاش  کرنے کیلئے انکی مساجد ،  گھر، یا ملازمت کی جگہوں میں   گھومنا نہیں پڑے گا، ایسے ہی انہیں تعزیت کیلئے  اپنے کام کاج کو کئی دنوں تک  چھوڑنا بھی نہیں پڑے گا اور نہ ہی لمبی لمبی مسافت طے کرنی پڑے گی، کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی مصروفیات  ہوتی ہیں۔

چنانچہ اگر تعزیت کیلئے بیٹھنے  کو جائز قرار دینے کیلئے صرف  یہی جواز ہوتا کہ اس سے لوگوں  کو آسانی ہوگی، اور انہیں مشقت سے بچایا جا سکے گا تو اس عمل کے جائز ہونے کیلئے یہی کافی تھا، لیکن یہاں تو اس مسئلہ میں صحیح اور صریح دلائل بھی مل گئے ہیں ! اب تو بالاولی جائز ہوگا!

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب