الحمد للہ.
الحمدللہیہ سوال فضیلۃ الشیخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کےسامنے پیش کیا گیا توان کا جواب تھا :
علماء کرام کا کہنا ہےکہ : جب کوئي انسان دنیا اورپیسے حاصل کرنےکے لیے حج کرتا ہے تویہ حرام ہے اوراس کےلیے حلال نہيں کہ وہ آخرت کےعمل کے ساتھ دنیا کی کوئي نیت کرے ، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
جوبھی دنیا اوراس کا مال ومتاع اورزینت حاصل کرنا چاہے ہم ایسوں کوان کے کل اعمال کا ( بدلہ ) پہنچا دیتے ہیں ، اوریہاں انہیں کوئي کمی نہيں کی جاتی ، ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کےکچھ نہیں اورجوکچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہےاورجوکچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جوکوئي بھی ( مال ) حاصل کرنے کے لیے حج کرے توآخرت میں اسے کوئي حصہ نہيں ملے گا ، لیکن جب اس نےحج کرنے لیے اخراجات حاصل کیے یا پھر مال اس لیے لیا کہ وہ حج میں اس سے تعاون حاصل کرسکے تواس میں کوئي حرج نہيں اورنہ ہی اس پرکوئي حرج ہوگا ۔
اوریہاں انسان کواس بات سے بچنا چاہیے کہ وہ پہلی غرض کے لیے پیسے حاصل کرے ، کیونکہ خدشہ ہےکہ اس کا یہ عمل ہی قبول نہ ہو اورجس کی طرف سے حج کی ادائيگي کے پیسے لیے ہیں اس کی طرف سےحج کی ہی ادائيگي نہ ہو ، اورجب ہم یہ کہیں کہ اس کاحج صحیح نہیں اوردوسرے کی جانب سے ادا ہی نہیں ہوا تواس وقت اسے اخراجات کی رقم لازمی واپس کرنا ہوگي ۔
لیکن انسان کوکسی دوسرے کی جانب سے حج کی ادائيگي کے لیے پیسے لینے چاہییں تا کہ وہ حج میں ان سے مدد حاصل کرسکے اوراسے اپنی نیت میں رکھنا چاہیے کہ وہ اس کی جانب سے حج کی ادائيگي کررہا ہے اورمشاعر مقدسہ اوربیت اللہ میں عبادات کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنےکی کوشش کرے ۔ انتھی .