جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

نماز وقت پر پڑھنی ہو یا قضا دونوں صورتوں میں نماز ادا یا قضا کرنے کی نیت کرنا شرط نہیں ۔

سوال

میں ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا کہ ابھی پہلی رکعت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ عصر کی اذان ہونے لگی، تو کیا میں نماز دوبارہ دہراؤں گا؟ کیونکہ اس وقت نماز تو ادا کی بجائے قضا ہو چکی ہے! اور اگر میں ظہر کی نماز ادا سمجھ کر پڑھوں اور مجھے یہ علم ہی نہ ہو کہ نماز کا وقت تو گزر چکا ہے، تو کیا میں اس صورت میں بھی نماز دہراؤں گا؟ کیونکہ اس صورت میں مجھے نماز قضا پڑھنی چاہیے تھی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان کے لیے نماز کو بغیر کسی عذر کے اتنا مؤخر کرنا جائز نہیں ہے کہ نماز کا وقت ہی ختم ہو جائے، اور جو شخص بغیر عذر کے نماز ترک کر دیتا ہے کہ اس کا وقت ہی گزر جائے تو اس نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ کرے، اور آئندہ وقت پر نماز کی پابندی کا عزم کرے۔

لیکن اگر کوئی شخص کسی عذر مثلاً نیند یا بھول جانے کی وجہ سے نماز مؤخر کرے تو جیسے ہی عذر زائل ہو تو فوری نماز ادا کرنا ضروری ہے، مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر: (20882) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

وقت پر ادا کی جانے والی نماز کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ نماز وقت پر ادا کرنے کی نیت کرے، بالکل اسی طرح فوت شدہ نماز پڑھتے ہوئے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ قضا نماز پڑھنے کی نیت کرے، بالخصوص جب نماز چھوٹ جانے کا عذر نیند یا بھول ہو؛ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں نماز کا وقت وہی ہے جس وقت آپ وہ نماز ادا کر رہے ہیں۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص سویا رہ جائے یا بھول جائے اور نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لیے نماز کا وقت وہی ہے جب وہ بیدار ہو یا جب اسے یاد آئے، اس کو اسی وقت اس فوت شدہ نماز کو پڑھنے حکم ہے، اس نماز کو پڑھنے کا یہی [جب وہ بیدار ہوا یا اسے یاد آیا] وقت ہے، لہذا وہ اسی وقت میں نماز پڑھ رہا ہے تو یہی وقت اس [ناسی یا نائم کے لیے ]نماز کے ادا کرنے کا ہے" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (24/57)

اسی طرح مرعاۃ المفاتیح: (2/312) میں ہے کہ:
"نمازی جس نماز کو پڑھنا بھول گیا ہے یا سویا رہ گیا ہے تو اس کے پڑھنے کا وقت وہی ہے جب اسے یاد آئے یا وہ بیدار ہو، یہی وقت اس نماز کے ادا کرنے کا ہو گا، چاہے یہ وقت نماز کے مقررہ وقت کے گزر جانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ یاد آنے اور بیدار ہونے کا وقت ہی اس نماز کی ادا کا وقت ہے۔" معمولی تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

اسی طرح " الموسوعة الفقهية الكويتية " (42/84-86) میں ہے کہ:
"مجموعی طور پر فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ نماز کی نیت میں نماز وقت پر ادا کرنے یا قضا کرنے کی تعیین کرنا شرط نہیں ہے، تاہم اس مسئلے کی تفصیلات اور جزئیات میں ان کا اختلاف ہے:
جیسے کہ ابن نجیم ؒ نے احناف کا موقف ذکر کیا ہے کہ: جو بھی نماز پڑھ رہا ہے اسے متعین کر لے تو اس کی نماز صحیح ہو گی، چاہے وہ نماز وقت پر ادا کر رہا ہو یا قضا ۔ نیز فخر الاسلامؒ اور دیگر فقہائے کرام کا ادا و قضا کی مباحث کے دوران کتبِ اصول میں کہنا ہے کہ : ادا اور قضا دونوں ایک دوسرے کی جگہ پر مستعمل ہیں، یہاں تک کہ قضا کی نیت سے ادا بھی جائز ہے اور اس کے بر عکس بھی جائز ہے۔

شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: نماز میں ادا یا قضا کی شرط لگانے کے حوالے سے کئی اقوال ہیں: ۔۔۔ ان میں سے صحیح ترین چوتھا قول ہے: قضا یا ادا کی شرط مطلق طور پر نہیں ہے؛ کیونکہ امام شافعی نے ابر آلود دن میں تخمینہ لگا کر نماز ادا کرنے والے کی نماز کو اور اسی طرح قیدی کے روزے کو بالکل صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ دونوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ نماز کا اور روزے کا وقت گزر چکا تھا۔

حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: نماز وقت پر ادا کی جا رہی ہے یا قضا ہر دو صورت میں تعیین ضروری نہیں ہے، اسی طرح موجودہ نماز پڑھنے کے لیے نماز وقت پر ادا کرنے کی شرط بھی نہیں لگائی جاتی۔" ختم شد مختصراً

اس بنا پر:
آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے اس کے مطابق آپ کی نماز بالکل صحیح ہے، آپ پر کچھ بھی لازم نہیں آتا۔

تاہم آپ نے نماز کو اتنا مؤخر کیا کہ اس کا وقت ہی گزر گیا تو اس وجہ سے آپ پر توبہ اور استغفار لازم ہے، نیز مستقبل میں کوشش کریں کہ تمام نمازوں کو وقت پر ادا کریں بلکہ مسجد میں لوگوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں۔

نیز زیادہ سے زیادہ نوافل کا بھی اہتمام کریں، تا کہ فرائض میں موجود نقص پورا ہو سکے، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (90143) اور (147624) میں ذکر کر آئے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب