ہفتہ 1 جمادی اولی 1446 - 2 نومبر 2024
اردو

" اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ..." جامع دعاؤں میں شامل ہے۔

227973

تاریخ اشاعت : 19-04-2018

مشاہدات : 43628

سوال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کافی دعائیں ثابت ہیں، میرے لیے ان تمام دعاؤں کو یاد کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ میرا حافظہ اتنا مضبوط اور قوی نہیں ہے، لیکن ایک دعا ریاض الصالحین کے سترہویں باب میں حدیث نمبر: 1492 کے تحت ذکر ہوئی ہے ، مجھے وہ بہت اچھی لگی، میں اسے اچھی طرح یاد کرنا چاہتا ہوں، تو کیا وہ حدیث صحیح ہے؟ اور کیا صرف اس دعا کو یاد کر لینا کافی ہو گا؟ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں: " اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "

جواب کا متن

الحمد للہ.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ دعا یاد کروائی: (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْهُ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ تَقْضِيهِ لِي خَيْرًا)
ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائیوں کی دعا مانگتا ہوں جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں، اے اللہ ! میں تجھ سےہر  اس بھلائی کا طالب ہوں جو تیرے بندے اور تیرے نبی نے طلب کی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس برائی سے جس سے تیرے بندے اور تیرے نبی نے پناہ چاہی ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور  ہراس قول و عمل کا بھی جو جنت سے قریب کر دے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور ہر اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کر دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ہر وہ حکم جس کا تو نے میرے لیے فیصلہ کیا ہے بہتر کر دے۔
اس روایت کو احمد نے (24498)، اور ابن ماجہ : (3846) میں روایت کیا ہے، نیز البانی نے اسے صحیح الجامع (1276) میں صحیح قرار دیا ہے۔

جبکہ یہ الفاظ:
"اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "
ترجمہ: یعنی اے اللہ ہم تجھ سے ہر اس خیر کا سوال کرتے ہیں جس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگی، تو ہی مدد گار ہے، تو ہی خیر و شر پہنچانے والا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی ہمت بھی صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس حدیث کو ترمذی: (3521)، اور بخاری نے ادب المفرد: (679) میں روایت کیا ہے، لیکن اس حدیث کو البانی نے ضعیف ترمذی میں ضعیف قرار دیا ہے۔

تاہم پہلے ذکر اور ثابت شدہ الفاظ کی بدولت بعد میں ذکر کردہ ضعیف الفاظ کی ضرورت نہیں رہتی، اس لیے پہلے الفاظ کو یاد کرنا اور اسے کثرت سے اپنی دعاؤں میں جگہ دینا مستحب ہے؛ کیونکہ یہ جامع دعاؤں میں شامل ہے۔

لیکن اگر آپ دوسرے الفاظ کو یاد کر کے بھی دعا کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ پہلے سوال نمبر: (179426) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ: جب تک دعا کے الفاظ کا معنی اچھا ہو، الفاظ مناسب ہوں تو پھر ان الفاظ کے ذریعے دعا کرنا جائز ہے، چاہے وہ کسی ضعیف حدیث میں ہی ذکر کیوں نہ ہوئے ہوں۔

اور یہ دعا جامع ترین دعاؤں میں شامل ہے؛ کیونکہ اس دعا میں تمام تر خیر و برکات کی دعا اور ہر قسم کے شر سے پناہ موجود ہے، پھر افضل ترین چیز کیلیے بھی دعا موجود ہے جو کہ جنت اور جنت کی جانب قریب کرنے والے اعمال کی صورت میں ہے۔

اس طرح عظیم ترین شر سے پناہ بھی ہے جو کہ جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے اعمال ہیں۔

ملا علی القاری رحمہ اللہ اپنی کتاب: "مرقاة المفاتيح" (1739) میں لکھتے ہیں:
"اور دعاؤں میں جامع ترین دعا یہ ہے : ۔۔۔" پھر انہوں نے اسی دعا کو ذکر کیا۔

ایسے ہی مناوی رحمہ اللہ "فيض القدير" (2/162) میں لکھتے ہیں کہ
"حلیمی کہتے ہیں: یہ دعا جوامع الکلم میں سے ہے، شارع نے ان الفاظ کے ذریعے دعا کرنے کو مستحب قرار دیا ہے؛ کیونکہ جب انسان ان الفاظ کے ذریعے دعا کرے گا تو وہ اللہ تعالی سے ہر قسم کی خیر طلب کرے گا، اسی طرح ہر قسم کے شر سے بھی اللہ کی پناہ مانگے گا، لہذا اگر کوئی دعا مانگنے والا شخص کسی خاص بھلائی یا مخصوص شر کے دور کرنے کی اللہ سے دعا مانگے تو وہ اپنی دعا کو خود ہی محدود کر دیتا ہے۔" ختم شد

آثار میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس دعا کو نماز میں تشہد کے آخر میں پڑھتے تھے اور لوگوں کو بھی سکھلاتے تھے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:
"تشہد میں دعائیں پڑھنے کے حوالے سے متعدد آثار موجود ہیں، ان تمام آثار میں سے بہترین اثر سعید بن منصور اور ابو بکر بن ابو شیبہ نے عمیر بن سعد کی سند سے بیان کیا ہے کہ: عبد اللہ بن مسعود ہمیں نماز کا تشہد سکھلاتے ہوئے کہتے تھے: جب تم میں سے کوئی تشہد سے فارغ ہو جائے تو کہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ الْخَيْر كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم ، وَأَعُوذ بِك مِنْ الشَّرّ كُلّه مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَم . اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك مِنْ خَيْر مَا سَأَلَك مِنْهُ عِبَادك الصَّالِحُونَ ، وَأَعُوذ بِك مِنْ شَرّ مَا اِسْتَعَاذَك مِنْهُ عِبَادُك الصَّالِحُونَ . رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً..."[ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتا ہوں جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں، یا اللہ ! میں تجھ سے ہر اس بھلائی کا طالب ہوں جو تیرے نیک بندوں نے طلب کی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس برائی سے جس سے تیرے نیک بندوں نے پناہ چاہی ہے، ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما۔۔۔] پھر وہ یہ آیت مکمل فرماتے" عمیر بن سعد کہتے ہیں کہ: اس کے بعد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ: "کسی بھی نبی اور نیک آدمی کی ہر دعا ان الفاظ میں شامل ہو جاتی ہے" ختم شد

تو اس لیے اس دعا کے الفاظ میں تمام دعائیں شامل ہو جاتی ہیں، اور اگر کوئی مسلمان ان الفاظ میں کثرت سے دعا مانگتا ہے تو یہ بہت بڑی خیر ہو گی، اسی طرح اگر کسی کو دیگر کوئی اور جامع دعا یاد نہیں اور وہ صرف انہی الفاظ کے ذریعے ہی دعا مانگے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر یاد کرنے کی استطاعت ہو تو یقینی طور پر یہ افضل ہے کہ انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ جامع ترین دعائیں یاد کرے اور حسب استطاعت ان سب کے ذریعے دعا مانگے، اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے کیلیے دعائیں کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب