اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنے کے حکم سے متعلق علمائے کرام کا اختلاف کیوں ہے؟

235020

تاریخ اشاعت : 18-01-2016

مشاہدات : 24867

سوال

سوال: ذبح کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
میں علمائے کرام کے موقف کو تفصیل سے سمجھنا چاہتا ہوں، لہذا دو طرفہ دلائل بیان کریں، میں نے فتوی نمبر: (85669) پڑھا تو مجھے پسند آیا، لیکن میں اس بات کی واضح دلیل چاہتا ہوں کہ جس جانور کو ذبح کرتے ہوئے غیر اللہ کا نام نہیں لیا گیا وہ حرام ہے، خصوصاً امام شافعی کی رائے تفصیل سے جاننے کا طالب ہوں، مجھے یہ دو آیات پڑھ کر یہ اشکال پیش آیا ہے اسے بھی حل فرما دیں ،کہ اللہ تعالی نے ان میں تمام حرام چیزوں کا ذکر کرنے کے باوجود ایسے جانور کا ذکر نہیں فرمایا جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ، وہ دو آیات یہ ہیں :
سورہ نحل کی آیت: إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی نے تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور جو غیر اللہ کیلئے مشہور کیا گیا ، سب حرام کر دیا ہے، تاہم جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ (اللہ کے قانون کا) باغی نہ ہو اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [النحل : 115]
اور سورہ انعام کی آیت : قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں: جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ نا پاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو ، ہاں جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ (اللہ کے قانون کا) باغی نہ ہو اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [الأنعام : 145]

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنے کے حکم سے متعلق علمائے کرام کے متعدد اقوال ہیں، چنانچہ:

احناف، مالکی، اور حنبلی اپنے مشہور موقف کے مطابق  یہ کہتے ہیں کہ ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، تاہم اگر کوئی بھول جائے تو  ذبیحہ حلال ہوگا، ان فقہائے کرام نے تسمیہ واجب ہونے کی دلیل فرمانِ باری تعالی سے لی ہے:

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ، کیونکہ یہ سرا سر گناہ کا کام ہے۔[الأنعام : 121]

اور بھولنے کی صورت میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کو دلیل بنایا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے  غلطی ، بھول چوک، اور جبراً کروائے گیے گناہوں سے در گزر فرما دیا ہے)
ابن ماجہ: (2034) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ " میں صحیح قرار دیا ہے۔

جبکہ شافعی فقہائے کرام  کے نزدیک  ذبح کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنا سنت ہے، یہی موقف امام احمد سے بھی مروی ہے۔

ان کی دلیل صحیح بخاری (5502)کی روایت ہے کہ: "کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی ان کی بکریاں سوق نامی جگہ پر چھوٹی سی پہاڑی کے ارد گرد  چَرا رہی تھی، اور کعب اس وقت  سلع پہاڑ پر تھے، تو اسی دوران ایک بکری کو چوٹ لگی  جس پر لونڈی نے نوکیلی شکلی میں پتھر توڑ کر بکری کو اس سے ذبح کر دیا، اسے کے بعد جب معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دی"

اسی طرح دوسری دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اللہ تعالی اہل کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیتے ہوئے فرمایا:
وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ
ترجمہ: اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔[المائدة : 5] حالانکہ اہل کتاب تسمیہ نہیں پڑھتے۔

اسی طرح انہوں نے سنن بیہقی (18890) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی  ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان کیلئے اللہ کا نام لینا کافی ہے، اور اگر ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا بھول جائے تو  پھر اللہ کا نام لیکر کھا لے) لیکن اس حدیث کی مرفوع سند ضعیف ہے،  تاہم ابن عباس سے موقوف  ہونا درست ہے، دیکھیں: "التلخيص الحبير" (4/ 338)

انہوں نے پہلے موقف  کی دلیل  وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ  [الأنعام : 121] کا جواب یہ دیا ہے کہ اس سے مراد وہ ذبیحہ ہے جو غیر اللہ کیلئے ذبح کیا گیا ہو، جیسے کہ فرمان باری تعالی  میں "فسق" کی وضاحت کی گئی ہے:
أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
ترجمہ: یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو [الأنعام : 145]

نیز ابن جریج رحمہ اللہ عطا سے بیان کرتے ہیں کہ : وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ   اس سے قریش کے بتوں کیلئے ذبح کردہ اور مجوسیوں کے ذبح کردہ جانوروں سے منع کیا جا رہا ہے ۔

جبکہ ظاہری فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ تسمیہ پڑھنا شرط ہے، چنانچہ سہواً، عمداً، یا جہلاً کسی بھی صورت میں تسمیہ پڑھنا ساقط نہیں ہو سکتا،  یہ موقف امام مالک اور احمد سے بھی مروی ہے، نیز سلف صالحین کی ایک جماعت کا بھی یہی موقف ہے، اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، ان کی دلیل فرمانِ باری تعالی کا عموم ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ  
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ، کیونکہ یہ سرا سر گناہ کا کام ہے۔ [الأنعام : 121]

اور یہ بھی دلیل انہوں نے دی ہے کہ: (جس آلہ سے خون بہہ جائے، اور اس  جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھا لو) متفق علیہ

اس لیے ذبیحہ کھانے کیلئے تسمیہ شرط ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ جب شرط مفقود ہو تو مشروط بھی کالعدم ہو جاتا ہے، چنانچہ  دیگر تمام شرائط کی طرح جب تسمیہ نہیں پڑھی گئی تو اسے کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔

مزید کیلئے دیکھیں:  "الموسوعة الفقهية" (8/ 90) ، " تفسیر ابن کثیر" (3/ 325) ، نیز آپ سوال نمبر : (85669) کا مطالعہ بھی کریں۔

 امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر  (7/75) میں علمائے کرام کا اختلاف تفصیلی طور پر ذکر کیا ہے۔

دوم:

جن کے نزدیک جانور کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا شرط ہے، یا واجب ہے ان کے ہاں بسم اللہ پڑھے بغیر ذبح شدہ جانور  کو کھانا حرام ہے، اور ان کی دلیل میں دو آیات ہیں:

پہلی آیت: 
(فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ)
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس میں سے کھاؤ، اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو۔[ الأنعام:118]

دوسری آیت:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ  
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ، کیونکہ یہ سرا سر گناہ کا کام ہے۔ [الأنعام : 121]

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے دو حالتیں ذکر کیں اور دونوں کا الگ الگ حکم بیان فرمایا، چنانچہ  " وَلَا تَأْكُلُوا" نہی  تحریمی ہے، جس کا تقاضا ہے کہ جس جانور پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی اسے کھانا حرام ہے، اور اسے کراہیت پر محمول نہیں کیا جا سکتا؛ اس لئے کہ اس حکم سے محض حرمت کا تقاضا ایک جگہ مسلم ہے، اور یہ ممکن نہیں کہ ایک جگہ مراد حرمت ہو اور دوسری جگہ کراہیت،ان کے ایک جگہ جمع ہونے کا ممتنع ہونا ایک بہترین اصول ہے، اور جہان تک بھولنے والے شخص  کا تعلق ہے تو وہ اس حکم کا مخاطب ہی نہیں ہے، کیونکہ بھولنے والے کو مخاطب بنانا ممکن ہی نہیں ہے؛ لہذا اس پر یہ شرط لاگو ہی نہیں ہوتی" انتہی
"تفسیر القرطبی" (7/ 76)

سوم:

یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالی نے حرام جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے  ایسے جانور کے حکم کا ذکر ان دو آیات میں نہیں فرمایا جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو:

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی نے تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور جو غیر اللہ   کیلئے مشہور کیا گیا ، سب حرام کر دیا ہے، تاہم جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ (اللہ کے قانون کا) باغی نہ ہو اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [النحل : 115]

اور سورہ انعام کی آیت : قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں: جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا  بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ نا پاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو ، ہاں جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ (اللہ کے قانون کا) باغی نہ ہو اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [الأنعام : 145]

لیکن اللہ تعالی نے اس کا ذکر تیسری جگہ فرما دیا ہے، اور وہ ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ  
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ، کیونکہ یہ سرا سر گناہ کا کام ہے۔ [الأنعام : 121]

چونکہ شرعی احکامات کتاب و سنت کے تمام دلائل جمع کر کے اخذ کیے جاتے ہیں، اس لیے کچھ دلائل کو  لیکر بقیہ کی طرف توجہ نہ دینا درست نہیں ہے۔

اس کی مثال آپ یوں بھی لیں کہ قرآن مجید میں کچلی والے جانوروں کی حرمت بیان نہیں ہوئی، اسی طرح پرندوں میں سے اپنے پنجوں سے پکڑ کر کھانے والوں کی حرمت بھی ذکر نہیں ہوئی، لیکن احادیث میں اس کا بیان موجود ہے، جیسے کہ مسلم: (1934) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے سے منع فرمایا، اور ہر پنجے سے پکڑ کر کھانے والے پرندے سے منع فرمایا"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب