سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

احادیث نبویہ زبانی یاد کرنے کی فضیلت

240606

تاریخ اشاعت : 18-11-2016

مشاہدات : 20821

سوال

احادیث نبویہ زبانی یاد کرنے کی کیا فضیلت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمیں کوئی ایسی صحیح حدیث کا علم نہیں ہے  جس میں ہو کہ جو شخص اتنی احادیث یاد کر لے  تو اس کیلیے اتنا اجر ہو گا۔

تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث یاد کرنا اور یاد کرنے کا اہتمام کرنا افضل اور بہترین اعمال میں سے ہے، اس کی دلیل درج ذیل سے ملتی ہے:

1-احادیث نبویہ یاد کرنے سے احادیث سمجھنے ، ان کا مفہوم ذہن میں بٹھانے اور لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔

2-ترمذی: (2658) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور اسے اچھی طرح سمجھے، پھر یاد کر کے دوسروں تک پہنچائے، بہت سے حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک فقہ پہنچا دیتے ہیں) البانی نے اسے “صحیح الجامع”(2309) میں صحیح قرار دیا ہے۔

نیز بزار: (3416) میں محمد بن جبیر بن مطعم  اپنے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سن کر یاد کرے اور پھر اسے دوسروں تک ایسے ہی پہنچائے جیسے اس نے سنا تھا)

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  حدیث نبوی یاد کر کے بعینٖہ  آگے پہنچانے  والے کیلیے دعا ہے یا خبر دی ہے۔

اور حدیث کے عربی الفاظ: ” نَضَّرَ “[تر و تازگی ] کا معنی یہ ہےکہ:  اللہ تعالی اسے خوبصورتی اور رونق عطا فرمائے،

تو اس طرح مطلب یہ ہو گا کہ: اللہ تعالی دنیا میں حدیث نبوی کے حافظ کو خصوصی طور پر خوشیاں اور مسرتیں عطا فرمائےگا، اور آخرت میں اسے نعمتوں سے نوازےگا، حتی کہ اس پر خوشحالی اور نعمتوں کے اثرات نمایاں ہو جائیں گے۔

اس حدیث کے مفہوم سے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ:
یہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے حدیث حفظ کرنے والے کو اللہ تعالی نے تر و تازگی بخش دی ہے، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق  یہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے تر و تازگی بخشے، دونوں مفہوموں میں سے خبر کا مفہوم زیادہ مضبوط ہے” انتہی
مرقاة المفاتيح (1/306)، از ملا علی قاری۔

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو علم اور ہدایت اللہ تعالی نے مجھے عطا فرما کر مبعوث کیا ہے اس کی مثال موسلا دھار بارش کی طرح ہے جس سے زمین صاف ہو نے کے بعد پانی کو پی بھی لیتی ہے اور بہت گھاس اور سبزہ اگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی روک لیتی ہے، پھر اللہ تعالی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ، لوگ اس پانی کو خود بھی پیتے  ہیں اور جانوروں کو بھی پلاتے ہیں نیز فصلوں کو آبیاری بھی کرتے ہیں اور کچھ بارش زمین کے ایسے حصے پر ہوتی ہے جو بالکل بنجر میدان ہے، نہ وہاں پانی رکتا ہے اور نہ سبزہ اگتا ہے ، یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کے دین کو سمجھ کر اس کا فقیہ بن جائے اور اس کو آگے پھیلائے اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے اس دین کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور مجھے دی گئی اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کیا)
بخاری:  (79) مسلم:  (2282)

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی تین اقسام بیان کی ہیں: دو اقسام اچھے لوگوں کی ہیں : ایک قسم سمجھ دار صاحب علم کی ہے جو لوگوں کو بھی دین کی سمجھ دیتا ہے، اور دوسری قسم وہ ہے جو علم کا حافظ ہے لیکن فقیہ نہیں ہے۔

تیسری قسم وہ ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں  اور یہ مذموم قسم ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی باتوں کو سننے والوں کو مختلف قسم کی بارانی زمینوں سے تشبیہ دی ہے، چنانچہ کچھ لوگ عالم، با عمل اور دوسروں کو سکھانے والے ہوتے ہیں، انہیں زر خیز زمین سے تشبیہ دی کہ زمین پانی جذب کر کے خود بھی فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔

اور کچھ لوگوں کے پاس علم  ہوتا ہے لیکن دنیاوی امور میں مشغول رہتا ہے، لیکن وہ اضافی اور نفلی  امور میں حصہ نہیں لیتا یا جو کچھ اس نے یاد کیا ہوا ہے اسے سمجھتا نہیں ہے، تاہم یاد کیا ہوا علم دوسروں تک پہنچا دیتا ہے، اس شخص کو ایسی زمین سے تشبیہ دی ہے جس میں پانی جذب تو نہیں ہوتا لیکن جمع شدہ پانی  سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی شخص کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں اشارہ ہے: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سن کر یاد کرے اور پھر اسے دوسروں تک ایسے ہی پہنچائے جیسے اس نے سنا تھا)

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو علم کی بات سن کر اسے یاد نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر خود عمل کرتے اسی طرح آگے بھی نہیں پھیلاتے  تو ایسا شخص بنجر اور شوریلی زمین کی طرح ہے جس میں نہ پانی جذب ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے استعمال کے قابل رہتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ مثال میں پہلی دونوں قسمیں فائدہ اٹھائے جانے کے اعتبار سے مشترک ہیں، جبکہ تیسری قسم سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اس لیے اسے الگ ہی رکھا، واللہ اعلم” انتہی

3-احادیث نبویہ یاد کرنا بھی اسی علم کے ضمن میں شامل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے، نیز حصولِ علم اور لوگوں کے درمیان علم پھیلانے کے متعلق فضائل مشہور و معروف ہیں۔

4-احادیث نبویہ کو زبانی یاد کرنا  انبیائے کرام کے وارثین علمائے کرام کی صفات میں سے ہے۔

5-احادیث نبویہ یاد کرنے سے دین کو تحفظ ملتا ہے نیز دین کی اہم بنیاد کی حفاظت ہوتی ہے، اگر اللہ تعالی نے احادیث نبویہ کی حفاظت کیلیے علمائے کرام کو اس جانب نہ لگایا ہوتا تو احادیث ختم ہو چکی ہوتیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی علم کو  لوگوں کے دلوں سے نہیں کھینچے گا بلکہ علمائے کرام کو اٹھا لے گا، یہاں تک کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنے سربراہ منتخب کر لیں گے ، پھر جب ان سے پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دے  کر خود تو گمراہ تھے ہی دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے) بخاری: (100) مسلم: (3673)

دارمی : (143) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (علم کے خاتمے سے پہلے علم حاصل کر لو، علم کا خاتمہ اس طرح ہو گا کہ اہل علم کو اٹھا لیا جائے گا)

6-احادیث یاد کرنے کی برکت میں یہ بھی شامل ہے کہ: لوگوں کو احادیث سکھلائی جائیں ، احادیث کی نشر و اشاعت سنت  اور علم کی نشر و اشاعت ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی مومن مسلمان احادیث سیکھ لے تو اس کیلیے بہت بڑا اجر ہو گا؛ کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے زمرے میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی راستے پر چلتا ہے علم حاصل کرنے کیلیے، تو اللہ تعالی اس کیلیے  جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے)مسلم

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنا، احادیث یاد کرنا اور علمی مذاکرہ جنت میں داخلے اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جس شخص کے بارے میں اللہ تعالی خیر کا ارادہ فرما لے اللہ تعالی اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے) متفق علیہ

دین کی سمجھ کتاب و سنت کے فہم کے ذریعے  ہوتی ہے، اگر کوئی شخص احادیث سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے بندے سے خیر کا ارادہ فرمایا ہے”  انتہی

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب