اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

برکت کیسے حاصل کی جائے؟

سوال

میری جان، مال، اہل و عیال اور میری دیگر ہر چیز میں برکت کیسے آ سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

برکت اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے؛ اور اللہ تعالی کی نعمتیں چار طریقوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں:

پہلی چیز:

اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے ساتھ؛ وہ اس طرح کہ اللہ اور اس کے رسول کے تمام تر احکامات کی تعمیل کریں اور ممنوعہ کاموں سے رک جائیں، نیز اگر واجبات کی ادائیگی میں کمی واقع ہو یا حرام کاموں میں انسان ملوث ہو جائے تو توبہ اور استغفار کرنے میں تاخیر مت کرے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ: اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کی کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا۔ [الاعراف: 96]

اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کی دعوت کے متعلق فرمایا:

 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا

ترجمہ: تو میں [نوح]نے انہیں کہا کہ: تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو؛ بیشک وہی بخشنے والا ہے [10] وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل کرے گا [11] اور تمہاری اموال اور نرینہ اولاد کے ذریعے امداد فرمائے گا، نیز تمہارے لیے باغات اور نہریں بنا دے گا۔[نوح: 11، 12]

اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی ھود علیہ السلام کی دعوت کے متعلق فرمایا:

وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ (50) يَاقَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلَا تَعْقِلُونَ (51) وَيَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ

ترجمہ: اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا : "اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، جس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں۔ تم نے تو محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں [50] اے میری قوم! میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ کیا تم سوچتے نہیں؟ [51] اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے معافی مانگو، پھر اسی کے آگے توبہ کرو وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ کرے گا اور تم مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو" [هود: 50 - 52]

ایسے ہی اللہ تعالی نے اہل کتاب کے بارے میں فرمایا:

 وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ

ترجمہ: اگر یہ لوگ تورات ،انجیل اور ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر نازل ہونے والی کتابوں کو نافذ العمل کرتے تو انہیں اوپر اور نیچے سے بھی کھانے کو ملتا۔ [المائدة:66]

صلہ رحمی یعنی رشتہ داری کو مت توڑیں ؛ اعمال تقوی میں سے عظیم ترین عمل ہے اس کے ذریعے برکت حاصل کی جا سکتی ہے ۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (جس شخص کو یہ پسند ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ کیا جائے، یا اس کی عمر بڑھا دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے) اس حدیث کو امام بخاری: (2067) اور مسلم : (2557)نے روایت کیا ہے۔

 اسی طرح لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے ملاوٹ اور سود سمیت دیگر تمام حرام امور سے بچاؤ بھی برکت کا باعث ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

ترجمہ: اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالی کسی بھی گناہ گار کافر کو پسند نہیں فرماتا۔ [البقرة :276]

الشیخ المفسر محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آیت کے حصے يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا میں اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالی سود مٹا دیتا ہے، یعنی اسے مالک کے ہاتھ سے چھین کر ختم کر دیتا ہے، یا پھر مالک کو اپنے مال کی برکت سے محروم فرما دیتا ہے، چنانچہ مالک اس مال سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا، امام ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی یہی مفہوم ذکر کیا ہے۔ " ختم شد
"أضواء البيان" (1 / 270)

اور جناب حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں-یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں- اگر وہ سچ بولیں اور [عیب] ظاہر کر دیں تو ان کی اس تجارت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر جھوٹ بولیں یا [عیب ]چھپائیں تو ان کے لین دین کی برکت ختم کر دی جاتی ہے) اس حدیث کو امام بخاری: (2079) اور مسلم : (1532)نے روایت کیا ہے۔

دوسری چیز:

اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کر کے برکت حاصل کی جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ

ترجمہ: اور تمہارے رب نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں ضرور بہ ضرور مزید عطا کروں گا۔ [إبراهيم :7]

شکر کی ادائیگی دل، زبان اور اعضا سب سے ہوتی ہے۔

چنانچہ دل کا شکر اس طرح ہو گا کہ اس بات کا اعتراف کریں کہ یہ نعمتیں خالصتاً اللہ کا فضل ہیں، اس کا دل اہل جاہلیت اور کفار کی طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کی جانب بالکل بھی نہ جائے؛ کیونکہ وہ نعمتوں کی نسبت اللہ تعالی کی بجائے مخلوقات کی طرف کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ان کی یہ کارستانی ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

 يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ

 ترجمہ: وہ اللہ کی نعمت پہچان جانے کے بعد اس کا انکار کر دیتے ہیں، ان میں سے اکثر کافر ہیں۔ [النحل:83]

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
" يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا مطلب یہ ہے کہ: وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی ہی انہیں نعمتیں عطا کرنے والا ہے، یہ نعمتیں خالص اسی کا فضل ہیں، لیکن اس قلبی اعتراف کے باوجود وہ اس چیز کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی بندگی بھی کرتے ہیں، نصرت الہی اور رزق کے متعلق کہتے ہیں کہ اللہ نے نہیں بلکہ غیروں نے دیا ہے" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (4 / 592)

زبان سے شکر اس طرح ہو گا کہ:

زبان سے ان نعمتوں کی نسبت کا اقرار خالق کائنات اور اللہ تعالی کی جانب کریں، اور ان نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجا لائیں، انسان اپنی مہارت، قوت اور ذہانت وغیرہ پر فخر مت کرے؛ کیونکہ یہ تمام تر نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔

جبکہ اعضا سے شکر اس طرح ہو گا کہ:
ان نعمتوں کو اللہ تعالی کے حرام کردہ امور میں استعمال نہ کرے۔

اعضا سے شکر میں یہ بھی شامل ہے کہ دوسروں کے ساتھ بھی اسی طرح بھلائی کرے جیسے اللہ تعالی نے اس کا بھلا کیا ہوا ہے؛ کیونکہ دوسروں کی بھلائی کرنے سے اللہ تعالی بندے کا مزید بھلا فرماتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

 ترجمہ: اور احسان و بھلائی کا بدلہ احسان و بھلائی ہی ہے۔[ الرحمن: 60] ؎

تیسری چیز:

نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی آداب کو ملحوظ خاطر رکھے، مثلاً: کھانا کھاتے اور پیتے وقت ، گھر میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ پڑھے، اس کی دلیل میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول ا للہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: (کہ جب آدمی اپنے گھر میں جاتا ہے، اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے، تو شیطان [اپنے چیلوں سے]کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات رہنے کا ٹھکانا اور کھانا کچھ بھی نہیں ہے، اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ تعالی کا نام نہیں لیتا تو شیطان [اپنے چیلوں سے] کہتا ہے کہ تمہیں رہنے کا ٹھکانا مل گیا اور جب کھانا کھاتے وقت بھی اللہ تعالی کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رہنے کا ٹھکانا اور رات کا کھانا بھی مل گیا) اس حدیث کو امام مسلم : (2018) میں روایت کیا ہے۔

اسی طرح کھانا کھاتے ہوئے اکٹھے بیٹھیں، اکیلے اکیلے مت کھائیں، کھانے پینے اور دیگر امور میں فضول خرچی سے پرہیز کریں، یعنی ضرورت کے مطابق ہی خرچ کریں اس میں کنجوسی یا فضول خرچی کا عنصر شامل نہ ہونے پائے۔

اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27) وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا (28) وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا  

ترجمہ: اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو [26]  یقیناً بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے [27] اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی رحمت کی جستجو میں، جس کی امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے [28] اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے ۔[الإسراء: 26- 29]

اس لیے مسلمان کو ہر حالت میں سنت نبوی پر چلنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل و عیال، مال و دولت اور اپنے بارے میں جو تعلیمات اپنی امت کو دی ہیں ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں مفید اور آسان ترین کتاب امام نووی رحمہ اللہ کی ریاض الصالحین ہے۔ [اس کتاب کے اردو ترجمہ کی پہلی جلد یہاں  اور دوسری جلد یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔ مترجم]

چوتھی چیز:

مسنون دعاؤں اور اذکار کے ذریعے انسان اپنی حفاظت کا انتظام کرے۔

اس کے لئے مسلمان صبح اور شام کے اذکار ، سونے کے اذکار اور دیگر تمام شرعی اذکار کی پابندی کرے۔

مسنون اذکار اور دعاؤں کے لئے مفید ترین کتاب سعید بن علی بن وھف القحطانی کی کتاب: حصن المسلم ہے۔ [اس کتاب کو آپ اردو زبان میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔ مترجم]

قصہ مختصر یہ ہے کہ: مسلمان کو برکت تقوی سے حاصل ہوتی ہے، اور تقوی یہ ہے کہ انسان ممنوعہ کاموں سے یکسر باز رہے اور حسب استطاعت احکامات کی تعمیل کرے، [اگر کوئی کمی کوتاہی ہو جائے تو ] توبہ اور استغفار کر لے، نیز ہر حالت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرنے کی کوشش میں لگا رہے۔

مسلمان کی زندگی میں اسباب برکت جاننے کے لئے آپ اس عربی مضمون کو پڑھیں:
http://www.alukah.net/sharia/0/44260/

اور برکت حاصل کرنے کے حوالے سے اس عربی مضمون کا مطالعہ بھی مفید ہو گا:
http://www.saaid.net/Doat/yahia/118.htm

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اور آپ کو ان تمام امور پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازے اور ہمارے لیے ان پر عمل آسان بھی بنا دے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب