الحمد للہ.
اول:
وکالت کی حقیقت یہ ہے کہ آپ عدالت میں قاضی کے سامنے اپنے موکل کی جانب سے تنازعات میں ظلم کے خاتمے یا حق کے حصول کیلیے کوشش کریں۔
ایسی صورت میں بنیادی طور پر وکالت جائز ہے۔
ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تنازعات اور حق طلبی میں کسی کی وکالت کرنا کہ موکل بھی حاضر اور ملزم بھی اس
پر راضی ہو تو اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے" ختم شد
"الإقناع" (2 / 156)
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[عربی زبان میں مستعمل لفظ: ] "محامی" تنازعات میں وکالت کرنے والے کو کہتے ہیں،
اور تنازعات میں وکالت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لیکر اب تک موجود ہے،
لہذا کسی کا وکیل بننے میں کوئی حرج نہیں، البتہ وکیل کو "محامی" کہنا یہ نیا نام
ہے۔
تاہم اگر وکیل اللہ سے ڈرے اور اپنے موکل کا غلط اقدامات اور جھوٹ پر معاون نہ ہو
تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (19 / 231)
اس لیے وکیل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اصل حقدار کے حق کا تحفظ کرے، لیکن ظالم کی ظلم پر یا غاصب کی مدد کرنا کسی صورت جائز نہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى
الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
)
ترجمہ: اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں
میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔[
المائدة :2]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
(
وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا
يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا
)
ترجمہ: ان لوگوں کی طرف سے مباحثہ مت کریں جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں، بیشک اللہ
تعالی بہت زیادہ خیانت کرنے والے اور گناہ گار سے محبت نہیں فرماتا۔[ النساء :107]
شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"(
وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ)
اس ایت میں "يَخْتَانُونَ"
کا ماخذ خیانت ہے اور اس کا مصدر "
اختتان"
ہے اس کا یہاں پر مطلب ہے جرم، ظلم اور گناہ۔ یہاں آیت میں اس بات سے بھی ممانعت ہے
کہ کوئی شخص جرم کر بیٹھے اور اس پر سزا، حد یا تعزیر لاگو کرنے کا حکم جاری کر
دیا جائے تو اب اس کی سزا، حد یا تعزیر ختم کروانے کیلیے اس کے جرم کا دفاع نہیں
کیا جائے گا، یا اس پر جاری ہونے والی قانونی سزا کو ختم کروانے کی کوشش نہیں کی
جائے گی؛ (إِنَّ
اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا)
مطلب یہ ہے کہ: جو بہت زیادہ جرم کرتا ہو اور گناہ کرتا ہو، اور جب کسی کے دل سے
محبت ختم ہو گئی تو اس کا متضاد ثابت ہو گیا اور وہ ہے بغض[یعنی اللہ تعالی اس سے
محبت نہیں کرتا تو اس سے نفرت فرماتا ہے]، گویا کہ یہ حصہ آیت کی ابتدا میں موجود
ممانعت کی علت اور سبب ہے" ختم شد
"تفسیر السعدی" (ص 200)
یحیی بن راشد کہتے ہیں ہم عبد اللہ بن عمر رضی الہ عنہ کی انتظار میں بیٹھے تھے تو
آپ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے
سنا آپ فرما رہے تھے: (جس کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے آڑے آ گئی تو
اس نے اللہ تعالی کے ساتھ ضد بازی کی، جو شخص جانتے ہوئے بھی جھوٹے معاملے کی
مدافعت کرے تو وہ اس وقت تک اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے جب تک وہ اس وکالت سے نکل
نہیں جاتا، اور جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے جو اس میں ہے ہی نہیں
تو اللہ تعالی اسے جہنمیوں کے نچوڑ میں ٹھہرائے گا یہاں تک کہ وہ اس بات سے رجوع
کر لے جو اس نے کہی تھی)
ابو داود (3597) اسے البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (1/798) میں صحیح کہا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وکالت اس کو کہتے ہیں کہ: انسان کسی کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے اس کے جھگڑے کی
پیروی کرے، اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس میں انسان حق بات کے ذریعے
حق کا تحفظ کرتا ہے، تو ایسی وکالت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ
سے زیادہ یہ ہے کہ آپ نے کسی شخص کو اجرت کے عوض میں وکالت اور نیابت پر رکھ لیا ہے
اور اجرت کے عوض نیابت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ: وکیل اپنی بات منوانے کیلیے سچے جھوٹے تمام طریقے اختیار کرے
تو اس قسم کی وکالت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں حق اور باطل دونوں
قسم کی باتوں کو تحفظ فراہم کرے گا اور یہ حرام ہے۔ جبکہ مسلمان پر واجب یہ ہے کہ
جب انسان کسی کو برحق مقدمات میں ملوث پائے تو اس کی وکالت نہ کرے؛ کیونکہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے
روکے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ
ہو تو اپنے دل سے [برا جانے ]اور یہ کمزور ترین ایمان ہے)"ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (11 / 609 - 610)
چنانچہ ایسا مسلمان وکیل جو اپنے پیشے کی بنیاد دلیل اور شرعی احکام پر رکھتا ہے، اپنے پیشے سے مخلص ہو کر محنت کرتا ہے، اپنے موکلین کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں بتلاتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے جن حقوق کا مطالبہ تمہارے لیے جائز ہے صرف انہی کے بارے میں دعوی دائر کرو، اور حقداروں کے حق تسلیم کرو، اپنے قول ، اقرار اور گواہی میں صرف سچ ہی بولیں، نیز وکیل انہیں تقوی الہی کی جانب رہنمائی کریں کہ یہی دنیا اور آخرت میں خوشحال زندگی کا باعث ہے، اسی طرح غریب اور کمزور مدعیان کے ساتھ انتہائی نرمی کے ساتھ پیش آئے ۔
اگر کوئی وکیل ان سب چیزوں پر کار بند رہتا ہے تو وہ معاشرے میں بہت بڑا اصلاحی کار نامہ سر انجام دے رہا ہے۔
دوم:
آپ کے تخصص سے متعلق قانونی اور شرعی تعلیم تو اسلامی جامعات اور دیگر ایسے کالجز میں موجود ہیں جن میں اسلامی تخصص اور مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
آپ کے ملک [مصر]کی جامعہ ازہر میں شریعت اور قانون کالج موجود ہے، اگر آپ کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں میسر آتا تو آپ ان کے نصاب سے مستفید ہو سکتے ہیں، اسی طرح قانون کالجز، اور جامعہ ازہر کا مرکز اسلامی معیشت بھی اس کیلیے معاون ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں مفید کتابوں کیلیے ہم آپ کے لیے درج ذیل کتب تجویز کرتے ہیں:
"التشريع الجنائي الإسلامي، مقارنا بالقانون الوضعي" از عبد القادر عودہ۔
اور اسی طرح ایک کتاب: "مصنفة النظم الإسلامية" از مصطفى كمال وصفی سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔
نیز مسلسل مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں قانونی ماہرین سے رجوع کریں تو آپ کو اپنا مقصد پانے کیلیے راہ اور کتب مل جائیں گی۔
نیز وکالت کے پیشے کی تاریخ، وکالت کے آداب اور اس سے متعلق دیگر احکام جاننے کیلیے آپ شیخ مشہور حسن سلمان کی کتاب "المحاماة" کا مطالعہ کریں جو کہ آپ کو درج ذیل لنک سے مل جائے گی:
http://majles.alukah.net/t66552/
واللہ اعلم.