اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جانوروں کا بنیادی طور پر حکم مباح ، جبکہ ذبیحہ اور گوشت کا بنیادی طور پر حکم حرمت کا ہے۔

سوال

علامہ سعدی رحمہ اللہ نے ایک فقہی قاعدہ اپنے منظومہ میں بیان کیا ہے کہ گوشت کا بنیادی طور پر حکم حرمت کا ہے، اس فقہی قاعدے کی تفسیر بیان کرتے ہوئے الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس میں جانور شامل نہیں ہیں، کیونکہ جانوروں کا بنیادی طور پر حکم حلت کا ہے۔ جبکہ گوشت کے بارے میں قاعدہ شکار کے گوشت والا ہے کہ شکار نشانہ لگنے کے بعد پانی میں گر جائے، یا ایسے ذبیحے والا ہے جس کو ذبح کرنے والا مجہول شخص ہے۔ مشائخ میں سے کسی نے اسی طرح کی بات بھی کی ہے کہ جب ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو بیان کرتے ہوئے اسی طرح کے قاعدے کا انہوں نے رد کیا، لیکن انہوں نے ابن عثیمین رحمہ اللہ کی گفتگو جیسی بات بھی کی اور کہا کہ: جب ایک ہی چیز میں کوئی سبب حرمت کا ہو اور دوسرا سبب حلت کا بھی پایا جائے تو پھر حرمت کے سبب کو ترجیح دی جائے گی۔ پھر انہوں نے پانی میں گرنے والے شکار کی بات بھی کی تھی ، چنانچہ انہوں نے اس قاعدے کی تردید کے لیے اس بات کو دلیل بنایا کہ صحابہ کرام گھریلو گدھوں کا گوشت حرمت سے پہلے کھایا کرتے تھے، اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس میں ذکر ہو کہ گھریلو گدھوں کا گوشت حلال تھا، تو انہوں نے ذکر کیا کہ: صحابہ کرام کے ہاں گھریلو گدھوں کے حلال ہونے پر کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا۔ مذکورہ قاعدہ اہل فقہ نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، تو کیا اگر فقہائے کرام نے یہ قاعدہ اپنی کتابوں میں مطلق طور پر ذکر کر دیا ہے کہ جانور اور گوشت دونوں کا بنیادی حکم حرمت ہے؟ تو کون سے ایسے متقدم فقہائے کرام ہیں جنہوں نے اسے مطلق رکھا ہے اور کون ہیں جنہوں نے ابن عثیمین رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اسے تسلیم کیا ہے کہ اس قاعدے میں گوشت تو شامل ہیں لیکن جانور شامل نہیں ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کوئی بھی ذبیحہ ہو یا گوشت اس کا بنیادی طور پر حکم حرمت کا ہے، اس لیے ذبیحہ یا گوشت اس وقت تک حرام ہے جب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے۔

تو قاعدے کی تائید میں اہل علم کی گفتگو ذکر کرتے ہیں:

1- علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس میں بہت ہی اہم قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی ایسے جانور کے ذبح میں شک پیدا ہو جائے جس کو کھانا حلال تھا تو وہ جانور حرام تصور کیا جائے گا؛ کیونکہ ذبیحے کے متعلق بنیادی حکم حرمت کا ہے، اور اس حکم کے متعلق کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔" ختم شد
شرح صحيح مسلم (13/116)

2-علامہ رافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "گوشت کا بنیادی حکم بھی مباح نہیں ہے؛ اس کے لیے آپ یہ مثال دیکھیں کہ: اگر کسی قریب المرگ جانور کو ذبح کیا گیا، اور یہ شک پیدا ہوا کہ ذبح کے وقت حرکت ذبح ہونے کی وجہ سے تھی یا مستحکم زندگی رکھنے والے جانور کی تھی؟ تو اس صورت میں حرمت کے حکم کو ترجیح دی جائے گی۔" ختم شد
فتح العزيز شرح الوجيز (1/280)

3-ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دوسری قسم: شرعی حکم کا سبب بننے والے وصف کو اس وقت تک معتبر سمجھنا جب تک اس سے متعارض چیز ثابت نہ ہو جائے۔ یہ بھی حجت ہے، مثلاً: طہارت اور بے وضگی کے حکم کو باقی رکھنا، اسی طرح نکاح کے حکم کو باقی رکھنا، ملکیت کے حکم کو باقی رکھنا، کسی کے ذمہ اس وقت تک کوئی ایسی چیز رکھنا جسے اس کے ذمہ لگایا جا سکتا ہو تا آں کہ اس کے خلاف چیز ثابت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حکم کو اس کے سبب کے ساتھ معلق رکھا ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اور اگر تم اسے پانی میں غرق ہوا پاؤ تو مت کھاؤ؛ کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ وہ پانی کی وجہ سے مرا ہے یا تمہارے تیر کی وجہ سے؟) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (اگر شکاری کتے کے ساتھ دیگر کتے بھی شکار میں شامل ہو جائیں تو تم شکار کو مت کھاؤ؛ کیونکہ تم نے اپنے کتے کو چھوڑتے ہوئے اللہ کا نام لیا تھا، کسی اور پر نہیں ۔)

چنانچہ جب ذبیحہ کے بارے میں یہ واضح ہو گیا کہ اصل بنیادی حکم حرمت کا ہے، اور شک پیدا ہو گیا کہ کیا مباح ہونے کا سبب پایا گیا ہے یا نہیں؟ تو پھر شکار اپنے اصلی حکم پر باقی ہو گا یعنی: حرمت۔" ختم شد
"اعلام الموقعین" (1/339، 340)

ابن قیم رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"تمام کے تمام ذبیحے حرام ہوں گے یہاں تک کہ دلیل سے ثابت ہو جائے کہ یہ ذبیحہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی روشنی میں حلال ہے۔ چنانچہ اگر کسی ذبیحے کے بارے میں حلت اور حرمت کے دلائل متصادم ہو جائیں تو حرمت کی دلیل کو ترجیح دیتے ہوئے ممانعت کا حکم لگانا 3 اعتبار سے بہتر ہو گا:

پہلی وجہ: بنیادی اصلی حکم جو کہ حرمت کا ہے اس کی تائید ہو گی۔
دوسری وجہ: یہ محتاط عمل ہے۔
تیسری وجہ: جب دو دلائل آپس میں متصادم ہوں تو دونوں ہی کالعدم قرار پائیں اور متعلقہ چیز کا اصل بنیادی حکم اس پر لاگو ہو گا، لہذا اسے حرام قرار دیا جائے گا۔" ختم شد
أحكام أهل الذمة (1/538، 539)

4-ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس چیز کا بنیادی حکم ممانعت ہو، جیسے کہ شرمگاہ اور جانوروں کا گوشت وغیرہ تو ان میں سے حلال وہی ہو گا جس کے حلال ہونے کا یقین ہو گوشت وغیرہ شرعی ذبح کے ذریعے اور شرمگاہ شرعی عقد کے ذریعے، چنانچہ اگر کوئی اور سبب رونما ہونے کی وجہ سے اس کے حکم میں تردد پیدا ہو تو : اصل حکم واپس آ جائے گا، اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا لہذا جس کا اصل حکم حرمت کا ہے تو اسے حرام قرار دے دیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شکار کو کھانے سے منع فرمایا ہے جس میں شکاری کو اپنے تیر کے علاوہ اور تیروں کے نشانات بھی نظر آئیں، یا شکاری کے کتے کے علاوہ کسی اور کتے کے اثرات بھی ہو، یا شکار پانی میں ڈوب جائے ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ: اب شکاری کو علم نہیں ہے کہ یہ شکار ؛ شکار کو حلال قرار دینے والے ذریعے سے مرا ہے یا کسی اور ذریعے سے؟" ختم شد
جامع العلوم والحكم ص93

5- علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ اپنی قواعد پر مشتمل نظم میں کہتے ہیں:
{والأصل في الأبضاع واللحوم *** والنفس والأموال للمعصوم }

شرمگاہ، گوشت، معصوم شخص کی جان اور مال کے بارے میں بنیادی حکم

{ تحريمها حتى يجيء الحلُّ *** فافهم هداك الله ما يُمَلُّ}

حرمت کا ہے تا آں کہ حلت کی دلیل مل جائے، خوب سمجھ لیں، اللہ تعالی آپ کی رہنمائی فرمائے۔

پھر اس کی شرح میں آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ: ان تمام اشیا میں بنیادی حکم حرمت کا ہے، تا آں کہ ان کے حلال ہونے کی یقینی دلیل مل جائے۔
لہذا: شرمگاہ کے لیے بنیادی حکم حرمت کا ہے، شرمگاہ سے مراد عورت کے ساتھ جماع کرنا ہے، لہذا کسی بھی عورت کے ساتھ جماع تبھی حلال ہو گا جب یقینی طور پر نکاح ہو جائے یا عورت کی کسی کی لونڈی ہو۔
اسی طرح گوشت کا معاملہ ہے کہ ہر قسم کا گوشت حرام ہے، تا آں کہ اس کے حلال ہونے کی یقینی دلیل ہمیں مل جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ایک ذبیحے کے متعلق دو قسم کے دلائل ملیں : ایک کی وجہ سے گوشت حلال بنتا ہو، اور دوسرے کی وجہ سے حرام بنتا ہو تو حرمت کا حکم اس پر لگایا جائے گا، اس لیے یقینی دلیل کے بغیر کوئی بھی ذبیحہ اور شکار حلال نہیں ہو گا۔" ختم شد
المجموعة الكاملة لمؤلفات الشيخ السعدي، الفقه (1/ 142)

6- الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ذبیحہ اور شکار کے متعلق اصل حکم حرمت کا ہے، حتی کہ ہمیں یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اسے کس طرح ذبح کیا گیا ہے، اور کس طرح اس کا شکار ہوا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذبح اور شکار دونوں ہی شرعی طریقے سے ہوں گے تو جانور کھانا حلال ہو گا وگرنہ نہیں۔" ختم شد
فتاوى الصيد (ص26-27) پیشکش : عبد الله طیار

دوم:
کچھ لوگ حیوان اور جانور کا لفظ بول کر مراد ذبح شدہ جانور اور حیوان لیتے ہیں، اس کا مقصد زندہ جانور نہیں ہوتا۔

جیسے کہ علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گھریلو جانوروں میں اصل بنیادی حکم حرمت کا ہے، تا آں کہ اسے صحیح طریقے سے ذبح کیا جائے، لہذا مشکوک طریقے سے ذبح ہونے کی صورت میں اسے حلال نہیں سمجھا جائے گا۔" ختم شد
معالم السنن (4/282)

علامہ شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جماع میں اصل حرمت ہے، چنانچہ صرف شرعی اسباب کی وجہ سے جماع کی اجازت ملتی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں بھی اصل یہ ہے کہ انہیں کھانا منع ہے، تا آں کہ شرعی طریقے سے انہیں ذبح کیا جائے ۔" ختم شد
الموافقات (1/401)

سوم:
زندہ جانوروں کے بارے میں بنیادی طور پر حکم مباح ہونے کا ہے، الا کہ کسی جانور کو شریعت نے اس بنیادی اصول سے مستثنی قرار دیا ہو؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
 ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہے تمہارے لیے ہی پیدا کیا ہے۔[البقرۃ: 29]

تو اس آیت کا عموم اس بات کی دلیل ہے کہ اشیا کا بنیادی طور پر حکم مباح ہے، اور اس عموم میں تمام جاندار، نباتات وغیرہ شامل ہیں، تا آں کہ کسی بھی چیز کے لیے موجب تحریم نص ثابت ہو جائے، مثلاً: کسی چیز کو کھانے سے ممانعت آ جائے، جیسے کہ شریعت نے خنزیر کھانے سے منع کیا ہے، اسی طرح گھریلو گدھوں کو کھانے سے منع فرمایا، یا کچلی والے درندوں کو کھانے سے منع کیا، پرندوں میں سے پنجوں کے ساتھ پکڑنے والے کو کھانے سے منع کیا ہے، اسی طرح کسی جانور کو قتل کرنے سے منع کیا گیا مثلاً: ہدہد اور ممولے کو قتل کرنے سے روکا گیا، یا کسی جانور کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا، جیسے کہ سانپ اور چوہے وغیرہ کو مارنے کا حکم دیا گیا، یا کسی چیز کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے یا وہ چیز بذات خود گندگی والی ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ
 ترجمہ: وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور گندگی والی چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتا ہے۔[الاعراف: 157]

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (18/ 336) میں ہے کہ:
"جن جانداروں کو کھانا ممکن ہے انہیں شمار کرنا بہت مشکل ہے، تو سب کے بارے میں جو بنیادی حکم ہے وہ مجموعی طور پر حلال ہونے کا ہے، الا کہ جن چیزوں کو حلت سے مستثنی قرار دے دیا جائے، جو کہ درج ذیل ہیں:

اول خنزیر: یہ کتاب و سنت کی نصوص سے حرام ہے، اور اس پر اجماع بھی ہے۔

لیکن خنزیر کے علاوہ جتنے حیوانات ہیں ان کے بارے میں اختلاف ہے: چنانچہ جمہور فقہائے کرام کہتے ہیں کہ کوئی بھی کچلی والا درندہ کھانا جائز نہیں ہے، مثلاً: شیر، چیتا، فہد، بھیڑیا اور کتا وغیرہ۔ اسی طرح پرندوں میں سے پنجوں والا پرندہ کھانا جائز نہیں ہے، مثلاً: صقر، باز، گدھ، عقاب اور شاہین وغیرہ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجوں والے پرندے سے منع فرمایا ہے۔

پھر کچھ جانوروں کے انفرادی طور پر حلال یا حرام ہونے کے بارے میں اختلاف ہے، جیسے کہ گھوڑا، لگڑ بگڑ، لومڑی اور کوے کی مختلف اقسام وغیرہ جن کی تفصیل لفظ "اطعمہ" کے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایک روایت کے مطابق مالکی فقہائے کرام کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہاتھی سے لے کر چیونٹی تک اور کیڑے مکوڑے تک جو کچھ بھی ہے سب کھانا جائز ہے، ماسوائے انسان اور خنزیر کے؛ کیونکہ یہ دونوں بالاجماع حرام ہیں۔

اسی طرح ان کے ہاں ایک روایت کے مطابق کوئی بھی پرندہ حرام نہیں ہے، یہی موقف لیث بن سعد، یحیی بن سعید اور اوزاعی وغیرہ کا ہے؛ ان کی دلیل اباحت پر دلالت کرنے والی عمومی آیات ہیں، اسی طرح سیدنا ابو درداء اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف بھی ہے کہ: جس چیز سے اللہ تعالی نے خاموشی برتی ہے وہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں اللہ تعالی نے معافی دے دی ہے۔

دوم: جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہے، مثلاً: سانپ، بچھو، چوہا، اور خونخوار درندہ جیسے کہ شیر، بھیڑیا اور دیگر وہ جاندار بھی جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

سوم: گندگی والی چیزیں، کھانے پینے کی چیزوں میں حلت کے لیے پاکیزگی اور حرمت کے لیے گندگی بنیادی عنصر ہیں۔ اسی چیز کو امام شافعی رحمہ اللہ نے سب سے بڑا اور بنیادی اصول قرار دیا ہے، اس اصول کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ترجمہ: اور گندگی والی چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتا ہے۔[الاعراف: 157]

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
يَسْأَلُوْنَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ
ترجمہ: وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال قرار دیا گیا ہے؟ تو آپ کہہ دیں: تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں۔[المائدۃ: 4] " ختم شد

مزید تفصیلات کے لیے آپ الموسوعة الفقهية (5/ 132- 147) کا ضرور مطالعہ کریں، یہاں پر خشکی کے جانوروں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ، چنانچہ انہیں 13 اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ان کے حکم کے متعلق پایا جانے والا اختلاف بھی بیان کیا گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
زندہ جانور، اور گوشت یا ذبیحے میں تفریق مشہور و معروف اور ثابت ہے، اور یہ کہ زندہ جانور کے بارے میں بنیادی طور پر حکم اباحت کا ہے، جبکہ گوشت اور ذبیحے کا بنیادی حکم حرمت کا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"گوشت کے بنیادی حکم کے بارے میں بتلائیں کہ حلت ہے یا حرمت؟
تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: گوشت کا بنیادی حکم حرمت کا ہے، جانور کا نہیں؛ کیونکہ جانور کے بارے میں اصل حکم حلت کا ہے، جبکہ گوشت کے متعلق اصل حکم حرمت کا ہے تا آں کہ ہمیں معلوم ہو جائے یا غالب گمان ہونے لگے کہ گوشت شرعی طریقے سے ذبح کیے گئے حلال جانور کا ہے۔
یعنی اگر ہمیں کسی جانور کے متعلق شک ہونے لگے کہ وہ جانور حلال ہے یا حرام؟ تو وہ بنیادی حکم کی وجہ سے حلال ہے، اس لیے ہم اسے ذبح کر کے کھا لیں گے، لیکن اگر ہمیں شک ہو کہ یہ گوشت حلال طریقے سے ذبح شدہ حلال جانور کا ہے یا نہیں؟ تو اس گوشت کے بارے میں اصل حکم حرمت کا ہے، تا آں کہ ہمیں غالب گمان ہونے لگے کہ یہ گوشت شرعی طریقے سے ذبح کیے گئے حلال جانور کا ہے۔" ختم شد
لقاء الباب المفتوح (234/ 9)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب