الحمد للہ.
اول:
عمارت کے کچھ حصے کو مسجد اور کچھ کو تجارتی دکانوں کے لیے مختص کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ساری عمارت کو مسجد بنا لیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں ، یہاں مصلحت اور نمازیوں کی ضرورت کو مد نظر رکھا جائے گا۔
اور اگر جگہ واقعی بہت بڑی ہے کہ حقیقی ضرورت سے زائد ہے: تو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ حصے میں دکانیں بنا لیں اور آمدن کو مسجد پر اور دیگر تعلیمی و دعوتی سرگرمیوں پر صرف کریں، نیز اگر ان دکانوں کو اس کام کے لیے وقف کر دیں تو یہ اور بھی بہتر ہو گا۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (12/ 295) میں ہے کہ:
"شافعی، مالکی اور حنبلی فقہائے کرام نے گھر کے صرف اوپر والے حصے کو یا صرف نیچے والے حصے کو مسجد بنانے کی اجازت دی ہے؛ کیونکہ اوپر اور نیچے والا حصہ دو الگ الگ جگہیں ہیں دونوں کو وقف کرنا درست ہے، اسی طرح دونوں میں سے کسی ایک کو وقف کرنا بھی جائز ہے۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (5/220) میں ہے:
"جس وقت شروع سے ہی مسجد نیچے اور رہائش اوپر بنائی گئی ہو تو رہائش کے نیچے مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، یا پھر رہائش پہلے بنائی گئی مسجد بعد میں بنائی گئی ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر پہلے مسجد بنائی گئی اور بعد میں اس کے اوپر رہائش بنائی جائی تو یہ جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسجد کی چھت اور اس کے اوپر والے حصے کا بھی وہی حکم ہے جو مسجد کا ہے۔" ختم شد
دوم:
مسجد میں خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اور اگر کر لی جائے تو درست نہیں ہو گی؛ کیونکہ مسند احمد : (6676) ، ابو داود: (1079)، نسائی : (714) میں ہے کہ سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے، اور اسی طرح شعیب ارناؤوط نے بھی مسند امام احمد کی تحقیق میں اسے حسن کہا ہے۔
اسی طرح جامع ترمذی: (1321) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو تم اسے کہو: اللہ تعالی تمہاری تجارت کو نفع بخش نہ بنائے۔ اور جب تم کسی کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے پاؤ تو اسے بھی کہو: اللہ تعالی تمہیں تمہاری گم شدہ چیز نہ لوٹائے۔)
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح علامہ بہوتی رحمہ اللہ "كشاف القناع" (2/ 366)میں کہتے ہیں:
"مسجد میں خرید و فروخت حرام ہے، اسی طرح چیزیں کرائے پر دینا بھی حرام ہے؛ کیونکہ یہ بھی بیع کی ہی ایک قسم ہے، یہ ممانعت معتکف اور دیگر تمام لوگوں کے لیے بھی ہے۔ اس کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ یہ خرید و فروخت معمولی نوعیت کی ہو یا بڑی ، اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو سب ہی منع ہیں؛ کیونکہ سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں خرید و فروخت ، اور مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔"
احمد، ابو داود، نسائی، ترمذی۔ امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا ہے۔
جناب عمران القصیر رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اوئے! یہ آخرت کا بازار ہے، اگر تم خرید و فروخت کرنا چاہتے ہو تو دنیا کے بازار میں چلے جاؤ۔
تاہم اگر کوئی مسجد میں خرید و فروخت کر لے تو وہ باطل ہو گی؛ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ اللہ کے گھر ہیں، ان میں خرید و فروخت نہیں کی جاتی۔
جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسجد میں بیع کو جائز قرار دیا ، تاہم مالک اور شافعی نے کراہت کے ساتھ جائز کہا ہے۔" ختم شد
اس لیے مسجد کی حد بندی ضروری ہے تا کہ کوئی بھی شخص مسجد کی حدود میں آ کر خرید و فروخت نہ کرے، اسی طرح حائضہ اور جنبی بھی مسجد میں نہ آئیں، اگر کوئی مسجد میں آ کر بیٹھنا چاہے تو دو رکعت ادا کر کے بیٹھے، اسی طرح جب مسجد کی حد بندی کر دی جائے گی تو اس کی حرمت اور صفائی ستھرائی کا بھی خیال کیا جائے گا، اور وہاں پر فضول حرکت نہیں کی جائے گی، اسی طرح کے دیگر احکامات کی تعمیل مزید آسان ہو جائے گی۔
حد بندی کے لیے چھوٹی یا بڑی دیوار بنائی جا سکتی ہے، یا پھر صرف کارپٹ بچھا کر بھی حد واضح کر سکتے ہیں، الغرض کوئی بھی ایسی چیز جس سے واضح ہو کہ یہ مسجد ہے، اس سے حد بندی کی جا سکتی ہے۔
تاہم اگر خرید و فروخت کی دکانیں قریب ہی ہیں تو پھر مکمل دیوار بنانا افضل ہو گا، اس کی وجہ سے نمازیوں کو شور شرابہ تنگ نہیں کرے گا اور نہ ہی قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو حرج محسوس ہو گا۔
واللہ اعلم