سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حج افراد کیا لیکن طواف قدوم اور سعی عمرے کی نیت سے کی

سوال

میں نے دیندار نوجوانوں کے ساتھ مل کر حج افراد کیا تھا، ہوا یوں کہ جس وقت ہم مکہ پہنچے تو میں نے انہیں کہا کہ: اب ہم کیا کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ طواف اور سعی کریں گے، تو میں نے کہا یعنی عمرہ کریں گے؟ تو پھر میں نے طواف اور سعی عمرے کی نیت سے کر لی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ طواف اور سعی حج کی ہے، مجھ پر عمرہ نہیں ہے، تو کیا میرا حج صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

اول:

حج افراد اس شخص کا ہوتا ہے جو صرف حج کی نیت کرے، تو وہ حج سے قبل عمرہ نہیں کرتا۔

چنانچہ جب وہ مکہ آ جائے تو پہلے طواف قدوم کرتا ہے ، حج افراد کرنے والے کے لئے طواف قدوم سنت ہے واجب نہیں ہے، اس کے لئے یہ بھی ہے کہ بعد میں سعی کر سکتا ہے، چنانچہ اگر طواف قدوم کے ساتھ ہی سعی کر لے تو اس کے حج کی سعی ہو جائے گی، اس کے بعد اس پر کوئی سعی نہیں ہے ، یہ جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے۔

جیسے کہ بہوتی رحمہ اللہ كشاف القناع (2/ 411) میں کہتے ہیں کہ:
"حج افراد کا طریقہ یہ ہے کہ: انسان صرف حج کا احرام باندھے اور جب حج سے فارغ ہو جائے تو اگر اس پر فریضہ عمرہ باقی ہو تو وہ عمرہ کر لے، یعنی اگر اس نے پہلے عمرہ نہیں کیا ہوا تو اب کر لے۔" ختم شد

ایسے ہی الموسوعة الفقهية (29/ 121) میں ہے کہ:
"طواف قدوم: اس طواف کے متعدد نام ہیں چنانچہ اسے طواف قادم، طواف ورود، اور طواف تحیہ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ طواف ان لوگوں پر ہے جو بیرون مکہ سے آنے والے پر [تحیۃ المسجد کی طرح]بیت اللہ کے لئے تحیہ کے طور پر ہوتا ہے، اس طواف کو "طواف اللقاء" اور "اول عہد بالبیت" بھی کہتے ہیں۔

حنفی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں طواف قدوم مکہ کی طرف آنے والے آفاقی حجاج کے لئے تحیۃ البیت کے طور پر سنت ہے، اس لیے بلا تاخیر اس طواف کا آغاز کرنا مستحب ہوتا ہے۔" ختم شد

دوم:

اگر آپ نے طواف اور سعی کرنے کے بعد احرام نہیں کھولا تو آپ اپنے حج افراد کے احرام میں باقی ہیں اور آپ کا حج بھی صحیح ہے، اس میں آپ کا عمرے کی نیت کرنا نقصان دہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ جمہور علمائے کرام کے ہاں حج کی نیت پر عمرے کی نیت کرنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جیسے کہ بہوتی رحمہ اللہ كشاف القناع (2/ 412) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص حج کا احرام باندھے اور پھر اس پر عمرے کی نیت کرے تو اس کی عمرے کی نیت صحیح نہ ہو گی؛ کیونکہ احادیث میں ایسا کچھ وارد نہیں ہوا، اور نہ ہی ایسے کرنے پر کوئی فائدہ ہو گا سابقہ صورت میں تو حج قران بن گیا تھا، اس صورت میں قران نہیں بنے گا؛ کیونکہ دوسری [یعنی عمرے کی ]نیت کی وجہ سے اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا۔" ختم شد

اور اگر آپ نے طواف اور سعی کرنے کے بعد احرام کھولا یعنی بال منڈوا کر یا کتروا کر اپنے عام کپڑے پہن لیے تو یہ آپ کا عمرہ ہو گیا، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ حج افراد کرنے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ اپنے حج کو عمرے میں بدل لے، بشرطیکہ وہ اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو، تو وہ آٹھ تاریخ کو دوبارہ حج کا احرام باندھے گا۔

جیسے کہ بہوتی رحمہ اللہ كشاف القناع (2/ 415) میں کہتے ہیں کہ:
"حج قران اور مفرد کرنے والوں کے لئے یہ مسنون ہے کہ اپنی حج کی نیت ؛عمرے کی نیت سے بدل لیں، اور جب وہ عمرہ کر لیں تو اپنے احرام کھول دیں، اور پھر دوبارہ حج کا احرام باندھیں بشرطیکہ وہ اپنے ساتھ ہدی نہ لے کر آئے ہوں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے حج افراد اور قران کی نیت کرنے والے ایسے صحابہ کرام کو اپنی نیت عمرے کی نیت سے بدلنے کا حکم دیا تھا جو ہدی اپنے ساتھ نہیں لے کر آئے تھے۔ متفق علیہ" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حج کو عمرے کی نیت سے اس لیے بدلنا کہ انسان حج تمتع کرنے والا بن جائے ، یہ سنت مؤکدہ عمل ہے، اس میں دو موقف ہیں کہ ایسے نیت بدلنا واجب ہے ، یا اس کی صرف تاکید کی گئی ہے، تو صحیح یہ ہے کہ حج کی نیت کو عمرے کی نیت سے بدلنا واجب نہیں ہے بلکہ یہ سنت مؤکدہ ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع (10/ 315)

حج کی نیت کو عمرے کی نیت سے بدلنے کی دلیل صحیح مسلم: (1218) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حج کے طریقے سے متعلق طویل حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہاں تک کہ جب آپ آخری چکر پورا کر کے مروہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: "اگر پہلے مجھے اس بات کا علم ہو جاتا جو بعد میں مجھے معلوم ہوئی، تو میں قربانی کے جانور [مدینہ سے ]ساتھ نہ لاتا، اور اس [طواف و سعی ]کو جو میں نے کیا ہے، عمرہ بنا لیتا، اس لیے تم میں سے جو اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہیں لائے ہیں، وہ اپنا احرام ختم کر دیں، اور اپنے طواف و سعی کو عمرہ بنا لیں۔" اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا [حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا ]یہ حکم خاص ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے بھی یہی حکم ہے؟ آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے فرمایا: "عمرہ حج میں داخل ہو گیا، عمرہ حج میں داخل ہو گیا، یہ حکم خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔)

تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا حج دونوں حالتوں میں ٹھیک ہے، تاہم پہلی صورت میں آپ کا حج افراد ہو گا، اور دوسری صورت میں آپ کا حج تمتع ہو گا، اور اس لیے آپ کو قربانی بھی کرنا ہو گی۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب