جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

آحاد احادیث ظنی ہیں یا قطعی؟ اس بارے میں طبری اور ابن تیمیہ کا موقف

295735

تاریخ اشاعت : 03-01-2023

مشاہدات : 3873

سوال

کل میری ایک منکر حدیث سے بات چیت ہو رہی تھی تو اس نے کہا کہ: طبری اور ابن تیمیہ رحمہما اللہ دونوں کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول احادیث ظنی الثبوت ہیں قطعی نہیں ہیں، اس کو یہ بھی شبہ تھا کہ آحاد احادیث یقین کا فائدہ نہیں دیتیں، بلکہ یہ ظنی الثبوت ہوتی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ اس شبہ کی وضاحت بھی کریں اور اس کا جواب بھی دیں۔

جواب کا خلاصہ

عمومی طور پر تمام مسلمان حلال و حرام میں آحاد احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں، جبکہ جمہور مسلمان آحاد احادیث کو عقائد میں بھی قبول کرتے ہیں یہی اہل سنت کا موقف بھی ہے، چنانچہ کسی حدیث کا ظنی یا قطعی ہونا اس حدیث پر عمل اور تصدیق کے منافی نہیں ہے۔

الحمد للہ.

اول: آحاد احادیث کو رد کرنے سے احادیث کا اکثر حصہ معطل ہو جائے گا۔

جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ثابت ہو جائے تو آحاد یا متواتر کی تفریق کے بغیر اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

یہ موقف صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین کا ہے کہ جب حدیث کی سند صحیح ثابت ہو جائے تو وہ اس پر بغیر کسی تامل کے عمل کرتے ہیں۔

آحاد احادیث کو مسترد کرنے والا شخص اکثر احادیث کو مسترد کر دے گا؛ کیونکہ احادیث میں آحاد احادیث کی کثرت ہے، چنانچہ یہ عمل اللہ تعالی کے فرمان سے متصادم ہو گا کہ:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا  ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دے وہ لے لو، اور جس چیز سے وہ تمہیں روکے ، تو تم رک جاؤ۔[الحشر: 7]

یہ قرآنی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام احادیث پر عمل کریں، اور اس حکم کو صرف متواتر احادیث پر محصور کرنا صحیح نہیں ہو گا جو کہ بالکل تھوڑی ہیں اور عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں۔

چنانچہ آحاد احادیث مسترد کرنے کی دعوت میں احادیث کا اکثر حصہ چھوڑنے اور اس آیت پر عمل نہ کرنے کی ضمنی دعوت ہے۔

دوم: احادیث قطعی الثبوت ہیں، کا مطلب:

احادیث قطعی الثبوت کا مطلب یہ ہے کہ ایسی احادیث جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نسبت قطعی طور پر صحیح ہے، اس کی چار قسمیں ہیں:

پہلی قسم: متواتر احادیث

دوسری قسم: وہ روایات جو صحیح بخاری اور مسلم میں ہیں اور انہیں ساری امت نے قبول کیا ہے۔

قطعی الثبوت روایات کی تیسری قسم: وہ روایت جسے ساری امت نے متفقہ طور پر قبول کیا ہے اگرچہ وہ بخاری و مسلم میں نہ ہو؛ کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ امت کا اجماعی فیصلہ غلط نہیں ہو گا۔

چوتھی قسم: ایسی مشہور حدیث جو کہ غیر متکلم فیہ متعدد سندوں سے ہو ۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (197164 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اس بنا پر: یہ دعوی کہ ساری کی ساری آحاد احادیث قطعی نہیں ہیں۔ صحیح نہیں؛ بلکہ وہ آحاد احادیث جنہیں ساری امت نے قبول کیا ہے، یا بہت سی اتنی سندوں کے ساتھ معروف ہیں کہ تواتر کی حد تک نہ پہنچ پائیں تو وہ بھی قطعی الثبوت ہیں۔

سوم: حدیث کو متواتر اور آحاد دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطلب آحاد میں شکوک و شبہات پیدا کرنا نہیں ۔

ہم نے پہلے سوال نمبر: (126571)کے جواب میں یہ واضح کر دیا ہے کہ حدیث کو متواتر اور آحاد دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطلب آحاد میں شکوک و شبہات پیدا کرنا نہیں ہے، نیز متواتر حدیث سے حصول علم ؛ آحاد احادیث پر اعتماد اور انہیں قبول کرنے کے منافی بھی نہیں، ہم نے اس کی کئی مثالیں وہاں پر ذکر کی ہیں، اس لیے اس سوال کا مطالعہ ضرور کریں۔

چہارم: عقائد کے باب میں آحاد احادیث قبول کرنے پر اہل سنت کا اجماع ۔

اہل سنت کا عقائد کے باب میں خبر واحد قبول کرنے پر اجماع ہے چاہے وہ ظنی ہی کیوں نہ ہوں، اس موقف میں اہل سنت کی مخالفت صرف معتزلہ جیسے بدعتی اور دیگر انہی کی روش اپنانے والوں نے کی ہے۔

جیسے کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام سمیت دیگر کا بھی ایک عادل راوی کی خبر کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا علم و عمل دونوں کی موجب ہے؟ یا صرف عمل کی موجب ہے علم کی نہیں؟
اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل کی موجب ہے علم کی نہیں، یہی موقف امام شافعی اور اہل فقہ و نظر فقہائے کرام کا ہے، چنانچہ ان کے ہاں علم کی موجب وہی چیز ہو گی جس کے ذریعے اللہ تعالی پر گواہی دی جا سکے، اور اس کے آنے سے قطعی طور پر عذر ختم ہو جائے اور اس میں کوئی اختلاف نہ ہو۔

جبکہ اکثر محدثین اور کچھ اہل نظر کہتے ہیں کہ: خبر واحد علم و عمل دونوں کی موجب ہے، انہی اہل علم میں حسین کرابیسی وغیرہ بھی شامل ہیں، اس کے متعلق ابن خویز منداد ذکر کرتے ہیں کہ اس کی تخریج امام مالک کے فقہی موقف پر ہوتی ہے۔

ابو عمر کہتے ہیں: ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خبر واحد عمل کی موجب ہوتی ہے علم کی نہیں، جیسے کہ دو اور چار گواہوں کی گواہی برابر ہوتی ہے۔

یہ اکثر محدثین اور فقہائے کرام کا موقف ہے، اور عادل راوی کی خبر واحد کو اعتقادات میں شامل کرنا ان کا دین ہے، اسی پر ان کی دوستی اور دشمنی ہے، ان کا ماننا ہے کہ یہی دین اور شریعت ہے اور اسی پر اہل سنت کی جماعت قائم ہے، احکام کے متعلق ان کی تفصیلات ہم نے بیان کر دی ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
التمہید: (1/ 7)

آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"میرے علم کے مطابق تمام مسلم خطوں کے محدثین اور فقہائے کرام کا اجماع ہے کہ عادل راوی کی خبر واحد قبول ہو گی، اور اگر وہ حدیث ثابت ہونے کے بعد کسی اور حدیث یا اجماع کی وجہ سے منسوخ نہ ہو تو اس پر عمل کرنا واجب بھی ہو گا۔

یہی موقف عہد صحابہ سے لے کر آج تک کے ہر زمانے کے فقہائے کرام کا ہے، اس کی مخالفت صرف خوارج اور معمولی سے بدعتی لوگوں نے کی ہے کہ جن کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔" ختم شد
"التمهيد" (1/ 2)

لہذا اگر یہ کہا جائے کہ خبر واحد علم کا فائدہ دیتی ہے یا ظن کا ہر دو صورت میں اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے چاہے اس کا تعلق احکام سے ہو یا عقائد سے۔

پنجم: امام طبری رحمہ اللہ کا خبر واحد کے متعلق موقف

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اور امام طبری رحمہ اللہ کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ: خبر واحد علم کا فائدہ تو نہیں دیتی لیکن اس کی تصدیق کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے چاہے خبر واحد کا تعلق عقیدے سے ہو، یہی موقف امام طبری نے اپنی تالیفات میں اپنایا ہے۔

جیسے کہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اس بارے میں وارد شدہ خبر ایسی ہو کہ جس سے اس طرح کی حجت قائم ہو سکتی ہو جس طرح دیکھنے اور سننے سے ہوتی ہے تو پھر ایسی خبر سننے والے کے لیے اس خبر کو اس کی روح کے ساتھ اپنے دین کا حصہ بنانا لازم ہے، اور اسی طرح اس کے متعلق گواہی بھی دے جیسے کسی چیز کو دیکھنے یا سننے والا گواہی دیتا ہے۔

اور اگر وارد شدہ خبر ایسی ہو کہ اس سے کسی شک کو زائل نہ کیا جا سکتا ہو، اور نہ ہی اس کے آنے سے عذر ختم ہو لیکن اسے بیان کرنے والا صدق و عدالت کا حامل ہو تو پھر اس خبر کو سننے والے پر اس کی تصدیق کرنا واجب ہے، اور گواہی بھی دے کہ خبر ایسے ہی ہے جیسے اس خبر بیان کرنے والے نے دی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ہم عادل راوی کی خبر واحد کے متعلق کہتے ہیں۔ ہم نے اس کے متعلق متعدد جگہوں میں تفصیلات بیان کی ہیں جسے دوبارہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" ختم شد
"التبصير في معالم الدين" (ص139)

آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"جس شخص کو شرعی حکم اس شخص کی جانب سے پہنچتا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا تھا تو یہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہے:

1-جس نے شرعی حکم پہنچایا وہ تنہا تھا یا ایک شخص کی طرح ایسی پوری جماعت تھی کہ ان کا بیان کردہ شرعی حکم؛ ترک عمل کی گنجائش رہنے دے۔

2- ایسی پوری جماعت بیان کرنے والی ہو کہ ان کا بیان کردہ حکم؛ ترک عمل کی کوئی گنجائش نہ رہنے دے۔

چنانچہ اگر بیان کرنے والا ایک ہے، یا پوری جماعت ایک راوی جیسی ہے کہ ان کے بیان کردہ شرعی حکم پر عمل نہ کرنے کی گنجائش رہ جائے تو پھر: اگر ان میں کوئی ایک راوی بھی عادل اور صادق نہ ہو تو اس پر عمل کرنا لازم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا علم ہونا لازم ہے۔

اور اگر ان میں کوئی عادل اور صادق راوی ہو تو پھر ان کی بیان کردہ خبر پر علم کی بجائے صرف عمل کرنا واجب ہے۔" ختم شد
"تهذيب الآثار" (2/ 768)

اسی طرح آپ رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"کچھ روایات ایسی ہیں جنہیں بیان کرنے والا ایک ہی عادل راوی ہوتا ہے یا ایسی جماعت ہوتی ہے جن کی بیان کردہ روایت موجب علم نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی روایت عذر ختم کرتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایسی روایت کی تصدیق کرنا لازم ہوتا ہے۔

اور کچھ روایات ایسی ہیں کہ جن کو بیان کرنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والے کے لیے موجب علم بھی ہوتی ہیں اور ان کی روایت سے عذر بھی ختم ہو جاتا ہے، تو یہ ایسی روایات ہیں جن کو بیان کرنے والے اتنے زیادہ لوگ ہیں کہ سب کا بھول جانا یا غلطی کرنا نا ممکن ہو، اور سب کے جھوٹ بولنے کا امکان بھی نہ ہو۔" ختم شد
تهذيب الآثار، مسند طلحہ و زبیر، ص439

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
میری ذکر کردہ یا غیر ذکر کردہ روایات میں ایسی جو بھی خبر ہو کہ جو ثقہ اور عادل راویوں کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو تو وہ ہمارے ہاں حق ہے، اور لازمی طور پر امت کے دین میں شامل ہے۔ ختم شد
"تهذيب الآثار" (2/ 713)

چنانچہ امام طبری رحمہ اللہ خبر واحد پر عمل اور اس کی تصدیق کو لازم قرار دیتے ہیں، اور امت پر یہ بھی واجب کہتے ہیں کہ احکام یا غیر احکام میں تفریق کے بغیر انہیں دین کا حصہ مانیں۔

مزید کے لیے آپ "أصول الدين عند الإمام الطبري" از ڈاکٹر طہ محمد نجا: ص61۔ اور "منهج الإمام ابن جرير الطبري في نقد الأحاديث"از ڈاکٹر نبیلہ بنت زید بن سعد: (2/707) کا مطالعہ کریں۔

ششم: خبر واحد پر عمل کے متعلق ابن تیمیہ رحمہ للہ کی رائے

ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ جب خبر واحد کے ساتھ قرائن بھی مل جائیں تو یہ بھی موجب علم ہوتی ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ احکام اور عقائد دونوں میں یکساں طور پر خبر واحد کو دلیل بناتے ہیں۔

جیسے کہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لیے صحیح موقف یہ ہے کہ: بسا اوقات خبر واحد کے ساتھ جب قرائن مل جائیں تو علم کا فائدہ دیتی ہے ، اس بنا پر : صحیح بخاری و مسلم کی روایات کے الفاظ محدثین کے ہاں متواتر ہیں، یہ الگ بات ہے کہ محدثین کے علاوہ لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ یہ متواتر ہیں؛ اسی لیے صحیح بخاری و مسلم کی اکثر روایات محدثین کے ہاں قطعی طور پر معلوم ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ فرمائے تھے، اس کے قطعی ہونے کی وجہ بسا اوقات اس لیے کہ یہ روایات محدثین کے ہاں متواتر ہیں تو کبھی اس لیے کہ ان احادیث کو امت نے قبول کیا ہے۔

ایسی خبر واحد جسے امت نے قبول کیا ہو حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی جمہور اہل علم کے ہاں موجب علم ہوتی ہے، یہی موقف اسفرائینی اور ابن فورک جیسے اشعری کے شاگردوں کا بھی ہے؛ کیونکہ خبر واحد بہ ذات خود صرف ظن کا فائدہ دیتی ہے ؛ لیکن جب اس کے ساتھ محدثین کا اجماع مل گیا کہ تمام محدثین نے اس کی تصدیق کے ساتھ اسے قبول کیا ہے تو یہ فقہائے کرام کے ہاں کسی حکم پر اجماع کی طرح ہو گیا کہ جس میں فقہاء ظاہر، قیاس یا خبر واحد کو دلیل بناتے ہیں؛ تو اس طرح یہ جمہور کے ہاں قطعی حکم بن جاتا ہے ، اگرچہ اجماع کے بغیر قطعی نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ امت کا اجماع غلطی سے محفوظ ہوتا ہے۔

کیونکہ شرعی احکامات کے ماہرین اہل علم کبھی بھی کسی حرام کام کے حلال یا حلال کام کے حرام ہونے پر جمع نہیں ہو سکتے، اسی طرح محدثین کا معاملہ ہے کہ وہ بھی کسی جھوٹی بات کی تصدیق پر یا کسی سچی بات کی تکذیب پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔

بسا اوقات محدثین میں سے کسی کو خبر واحد سے متعلق ایسے قرائن کا علم ہوتا ہے جو ان کے لیے موجب علم بنتے ہیں، لہذا جس کسی کو بھی ان محدثین کی طرح ان قرائن کا علم ہو جائے تو اسے بھی محدثین کی طرح علم حاصل ہو جائے گا۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (18/40-41)

خلاصہ:

عمومی طور پر تمام مسلمان حلال و حرام میں آحاد احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں، جبکہ جمہور مسلمان آحاد احادیث کو عقائد میں بھی قبول کرتے ہیں یہی اہل سنت کا موقف بھی ہے، چنانچہ کسی حدیث کا ظنی یا قطعی ہونا اس حدیث پر عمل اور تصدیق کے منافی نہیں ہے۔

منکر حدیث کا حکم جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (115125 ) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب