منگل 4 جمادی اولی 1446 - 5 نومبر 2024
اردو

سرکاری سطح پر بہت زیادہ فطرانہ مقرر کیا گیا تو غریب پڑوسیوں کی جانب سے فطرانے کا آپس میں ہی تبادلہ کر نے کا حکم

312556

تاریخ اشاعت : 09-05-2021

مشاہدات : 2373

سوال

یہ سوال یمن سے موصول ہوا ہے کہ: حکومت کی جانب سے فطرانے کی مقدار سے تین گنا زیادہ فطرانے کی قیمت ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، سائل ایک غریب بستی کا باسی ہے، وہاں پر معاشی حالات بہت سنگین ہیں، تو بستی کے غریب افراد نے فیصلہ کیا کہ آپس میں ہی فطرانے کا لین دین کر لیں؛ کیونکہ سب کے سب ہی غریب ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ پڑوسی ایک دوسرے کے ساتھ طے کر لیں کہ وہ ایک دوسرے کو فطرانہ دیں گے، یعنی جس نے کسی کو اپنا فطرانہ دیا تو لینے والا اپنا فطرانہ اسی دینے والے کو دے گا، تو کیا ایسے کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر مسلمان کے پاس اپنی اور اپنے اہل و عیال کی عید کے دن اور رات کی ضرورت سے زیادہ اناج ہو تو ہر چھوٹے بڑے ، اور مرد عورت پر ایک صاع اناج کا بطور فطرانہ فرض ہے ۔

یہ فطرانہ غریبوں اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا، اس کی مقدار ایک صاع اناج  ہے۔

فطرانے کے معاملے میں سرکاری سطح پر مذکورہ صورت سے ہٹ کر کچھ بھی لازمی قرار دیا جائے گا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، مثلاً: حکومت ایک صاع سے زیادہ یا صاع سے زیادہ اناج کی قیمت فطرانے کے لیے مقرر کرتی ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ہم نے قیمت کا تذکرہ امام ابو حنیفہ ؒ کے موقف کے مطابق کیا ہے، اگرچہ جمہور فطرانے میں نقدی قیمت ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فطرانے میں ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو کا ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی حکم دیا کہ فطرانہ عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔"
اس حدیث کو بخاری: (1503) اور مسلم: (984) نے روایت کیا ہے۔

دوم:
اگر کسی انسان پر فطرانہ واجب ہو جائے اور وہ غریب بھی ہو تو اگر کوئی اسے فطرانے کا اناج دے تو خود لے بھی سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی حیلہ نہ کیا جائے، مثلاً یہ غریب شخص کسی کو اس شرط پر فطرانہ دے کہ وہ اپنا فطرانہ ادا کرتے ہوئے یہی اناج اسی  کو دوبارہ واپس کر دے۔

جیسے کہ "كشاف القناع "(2/ 254) میں ہے کہ:
"غریب شخص بھی اپنا فطرانہ اور زکاۃ ایسے شخص کو دے سکتا ہے جس سے اس نے خود بطور زکاۃ یا فطرانہ اسے وصول کیا ہے؛ کیونکہ واپس وصولی ایک نئے سبب کی وجہ سے ہوئی ہے، اور اس کا حکم ایسے ہی جیسے کوئی چیز وراثت میں دوبارہ واپس لوٹ آئے، لیکن اس کے جائز ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی حیلہ نہ ہو، مثلاً زکاۃ دیتے ہوئے یہ شرط نہ لگائے کہ اپنا فطرانہ یا زکاۃ واپس اسی کو دے۔" ختم شد

اسی طرح "مطالب أولي النهى" (2/ 114) میں ہے کہ:
" غریب شخص اپنا فطرانہ اور زکاۃ ایسے شخص کو دے سکتا ہے جس نے اسی غریب کو اپنا فطرانہ یا زکاۃ دی ہے؛یعنی فقیر کسی سے زکاۃ یا فطرانہ وصول کر کے اسی کو اپنی زکاۃ یا فطرانے کے طور پر واپس دے دے؛ یہ اس لیے جائز ہے کہ جب حکمران نے یا غریب نے فطرانہ یا زکاۃ وصول کر لی تو اب یہ دینے والے کی ملکیت سے نکل گیا، اور اب دینے والے کو کسی اور سبب کی بنا پر واپس وہی چیز مل گئی ہے، تو  اس کا حکم ایسے ہی جیسے کوئی چیز وراثت میں اسے دوبارہ واپس مل جائے۔۔۔ کتاب کی تنقیح کرنے والے کا کہنا ہے کہ : بشرطیکہ اس میں کوئی حیلہ نہ ہو، یعنی ا س انداز کو اپنانے کا مقصد فطرانہ یا زکاۃ روکنا نہ ہو، تو پھر یہ طریقہ بھی دیگر تمام حیلوں بہانوں کی طرح حرام ہو گا۔" ختم شد

اس بنا پر:

اگر بستی کے تمام باسی غریب ہیں، تاہم کسی غریب کے پاس اتنا اناج موجود ہے جو کہ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی عید کے دن اور رات کی ضروریات سے زیادہ ہے ، تو پھر وہ اپنا فطرانہ بستی کے غریبوں کو دے گا، اور اگر بغیر شرط لگائے کوئی اور شخص اسے اپنا فطرانہ دے تو وہ لے لے، اور اگر کوئی بھی اسے اپنا فطرانہ نہیں دیتا تو اس کی طرف سے واجب ادا ہو گیا ہے ، اور اللہ تعالی اسے اپنے فضل سے عطا کر دے گا۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب