سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

تاش حرام ہونے كى علت

321

تاریخ اشاعت : 20-10-2008

مشاہدات : 8513

سوال

اسلام ميں تاش كھيلنا كيوں حرام ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام نے درج ذيل اسباب كى بنا پر تاش كھيلنا حرام كيا ہے:

1 - ايسے كام ميں وقت كا ضياع ہوتا ہے جس ميں نہ تو دين كا فائدہ اور نہ ہى كوئى دنياوى فائدہ ہے.

2 - اس كھيل كى سوچ اور فكر قمار بازى پر مشتمل ہے، اور يہ اسى فكر كے مشابہ ہے جو نرد ميں ہے، جسے شريعت اسلاميہ نے قطعى طور پر حرام كيا ہے، جيسا كہ صحيح حديث ميں ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے نردشير كھيلى تو گويا اس نے اپنا ہاتھ خنزير كے گوشت اور خون ميں ہاتھ رنگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2260 ).

اور جو شخص بھى كوئى ايسا كھيل كھيلے جو قمار بازى كے مشابہ ہے، تو وہ اسے حرام كردہ قمار بازى اور جوا كھيلنے ميں تساہل كى طرف لے جائيگا.

3 - يہ كھيل ذى روح كى ( لڑكے اور لڑكى .... ) كى تصاوير پر مشتمل ہے.

4 - تجربہ سے ثابت اور معروف ہے كہ اس كھيل ميں شامل ہونے والوں كے درميان حسد و بغض پيدا ہوتا ہے.

5 - اس ميں دھوكہ و فراڈ اور حيلہ سازى ہوتى ہے.

6 - يہ كھيل اللہ كے ذكر اور نماز سے غافل كر ديتا ہے، اور اگر فرض بھى كريں كہ وہ لوگ نماز باجماعت اور بروقت مسجد ميں ادا كرتے ہيں، ليكن وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس حديث سے كس طرح نكل سكتے ہيں:

" ہر جس ميں اللہ كا ذكر نہ ہو وہ لہو لعب ميں شمار ہوتى ہے، ليكن چار اشيا نہيں: خاوند كا اپنى بيوى كے ساتھ كھيلنا، اور آدمى كا اپنے گھوڑے كو سدھانا، اور آدمى كا دو گاڑھى ہوئى كے درميان چلنا ( يعنى نشانہ بازى كرنا ) اور آدمى كا تيراكى سيكھنا "

اسے طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4534 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ كس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث ميں شامل نہيں ہوتے:

" جو لوگ بھى كسى ايسى مجلس سے اٹھيں جہاں انہوں نے اللہ كا ذكر نہ كيا ہو، تو وہ مرے ہوئے گدھے كى طرح ہو كر اٹھتے ہيں، اور انہيں حسرت ہوتى ہے "

اور امام احمد كى روايت ميں ہے:

" اور يہ مجلس ان پر روز قيامت حسرت ہو گى "

صحيح الجامع حديث نمبر ( 5508 ).

اور كئى ايك معاصر علماء كرام نے بھى تاش كھيلنے كى حرمت كا فتوى جارى كيا ہے: مثلا الشيخ عبد العزيز بن باز، اور الشيخ محمد بن صالح العثيمين، اور الشيخ عبد اللہ بن جبرين اور دوسرے اہل علم.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد