الحمد للہ.
محترمہ بہن نے سوال میں عورت کی توہین اور اس تحقیر وغیرہ کا جو ذکر کیا ہے یہ سب درست نہیں ہے، اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
اول:
اس بات کی وضاحت کہ اللہ تعالی نے بیٹوں کو زندگی کی زینت قرار دیا
جن قرآنی آیات میں بیٹوں کو زینت قرار دیا گیا ہے، یہ در اصل لوگوں کی حقیقت بیان کی گئی ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف بیٹوں کو زینت قرار دینے کا حکم دیا گیا ہو؛ کیونکہ عام طور پر آدمی اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھ کر کثرتِ نرینہ اولاد کا ہی ذکر کرتا ہے جو والد کے مکمل طور پر سہارا ہوتے ہیں، تو اللہ تعالی نے کافروں کو متنبہ کیا کہ یہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے نعمت ہے، اور اسی نعمت پر ہی تمہیں یہ چاہیے تھا کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے اور ایمان لے آتے، نا کہ اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرتے۔
جیسے کہ درج ذیل آیات میں ہے کہ:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ ترجمہ: اور اللہ تعالی نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے ہی لیے جوڑے بنائے، اور پھر تمہارے جوڑوں میں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے بنائے، تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا، کیا پھر بھی وہ باطل پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اللہ تعالی کی نعمتوں کی نا شکری کرتے ہیں؟[النحل: 72]
فرمانِ باری تعالی ہے: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا
ترجمہ: یہ مال اور بیٹے تو محض دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ورنہ آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور اچھی امیدیں لگانے کے لحاظ سے بھی ۔ [الکہف: 46]
اسی طرح اللہ تعالی نے سیدنا ہود علیہ السلام کی اپنی قوم کو دی ہوئی دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ، وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ، أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ، وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ترجمہ: پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو [131] اس ذات سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں کے ذریعے مدد فرمائی جنہیں تم جانتے ہو۔ [132] اس نے تمہاری مویشیوں اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد فرمائی۔ [133] باغات اور چشموں کے ذریعے [134] (اب تمہارے ایمان نہ لانے کی وجہ سے)یقیناً مجھے تمہارے متعلق بڑے دن کے عذاب کا خدشہ ہے۔ [الشعراء: 131 – 135]
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۔۔۔ میں اللہ تعالی نے صرف بیٹوں کا ذکر کیا ہے بیٹیوں کا ذکر نہیں فرمایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لوگ لوگوں میں رواج تھا کہ وہ بیٹوں پر فخر کرتے تھے بیٹیوں پر نہیں، بلکہ بیٹیوں کو دورِ جاہلیت میں بہت زیادہ حقارت آمیز رویے کا سامنا ہوتا تھا، اسی کی طرف اشارہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ یعنی جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصے سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔۔۔
یہاں اللہ تعالی کے فرمان زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا میں مال اور اولاد کو اپنے لیے خوب صورتی کا باعث سمجھتا ہے، اس کے لیے آپ تصور کریں کہ آپ لوگوں کی ضیافت اور مہمان نوازی بہت زیادہ کرتے ہیں ، اور آپ کے دس بیٹے ہیں وہ سب کے سب آنے والے مہمانوں کا پر تپاک انداز میں استقبال کرتے ہیں تو آپ اپنے بیٹوں کے فوج ظفر موج کی وجہ سے نہایت خوشی محسوس کریں گے، اسے زینت کہتے ہیں ، اسی طرح آپ تصور کریں کہ آپ گھوڑے پر سوار ہیں اور یہ سارے نوجوان آپ کو دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں، آپ اپنے دل میں بہت ہی مثبت چیزیں محسوس کریں گے یہ احساس زینت ہے۔۔۔” ختم شد
ماخوذ از تفسیر سور ت الکہف: صفحہ: 78 – 79
تو حاصل کلام یہ ہوا کہ: اللہ تعالی کی بندوں پر نعمتوں کا تذکرہ کرنے والی آیات بینات میں یہ کہیں نہیں ہے کہ بیٹوں کو ذریعہ فخر بنایا جائے، اور بیٹیوں کی بجائے صرف بیٹوں سے محبت کریں۔
دوم:
بیٹیوں کے ساتھ شفقت اور ان کی حسن تربیت کا اسلام نے حکم دیا ہے
مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ انسان اپنی بیٹیوں کے ساتھ مشفقانہ تعلق رکھے، ان سے محبت کرے، بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، شریعت نے ہمیں اسی چیز کا حکم دیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ: ” میرے یہاں ایک عورت مانگنے آئی اور اس کے ساتھ دو بچیاں بھی تھیں ۔ میرے پاس سے اسے ایک کھجور کے سوا اور کچھ نہ ملا ۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی اور اس نے وہ کھجور اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی ۔ اور پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس خاتون کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی اس طرح بیٹیوں کی پرورش کرے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی) ” اس حدیث کو امام بخاری: (5995) اور مسلم : (2629) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی دو بیٹیوں کی بالغ ہو جانے تک کفالت کرے، تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گے ۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا کر اشارہ کیا۔ اسے مسلم (2631) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ انہیں مناسب جگہ رہائش دے، ان کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھے، اور ان کی مکمل کفالت کرے تو اس کے لیے یقینی طور پر جنت واجب ہو گئی۔)
راوی کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اگر دو بیٹیاں ہوں تو؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چاہے دو بیٹیاں بھی ہوں۔)
راوی کہتے ہیں: مجلس میں موجود کچھ لوگوں نے یہ بھی خیال کیا کہ: اگر کوئی ایک بیٹی کے متعلق پوچھ لیتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ایک بیٹی کے متعلق بھی یہی خوشخبری دے دیتے۔
اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد: (22 / 150) میں روایت کیا ہے ، اور مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز الشیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (6 / 397) میں ذکر کیا ہے۔
پھر اللہ تعالی نے ہمیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا اور پیروی کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ترجمہ: یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ -صلی اللہ علیہ و سلم – اسوۂ حسنہ ہے، اس کے لیے جو اللہ تعالی سے ڈرے اور آخرت کی امید رکھے، اور اللہ تعالی کا ڈھیروں ذکر کرے۔ [الاحزاب: 21]
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیٹی کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کے ساتھ مشفقانہ رویہ اپناتے تھے۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ” ہم تمام ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھیں ، ابھی ہم میں سے کوئی بھی وہاں سے نہیں گیا تھا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں ۔ اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے الگ نہیں تھی ( یعنی بالکل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چال جیسی تھی ) تو جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا ۔ فرمایا میری بیٹی خوش آمدید! پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھا لیا۔ ۔۔” اس حدیث کو امام بخاری: (6285) اور مسلم : (2450) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سنن ترمذی: (3872) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ” میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا ، آپ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ دیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔۔۔ ”
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح اور غریب ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی روایت دیگر اسانید سے بھی منقول ہے۔”
ایسے ہی سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے ، اس لیے جس نے اسے ناحق ناراض کیا ، اس نے مجھے ناراض کیا ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3714) اور مسلم : (2449) نے روایت کیا ہے۔
بیٹیوں کی تحقیر اہل جاہلیت کا طریقہ ہے
بیٹیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا دورِ جاہلیت کا طریقہ تو رہا ہے یہ مسلمانوں کا وتیرہ نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی: لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ یعنی: آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ بیٹیاں عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں ملا کر عطا کرتا ہے، اور پھر جسے چاہے بانجھ بنا دیتا ہے؛ یقیناً وہی جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔
۔۔۔ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں بتلایا کہ میاں بیوی کی تقدیر میں اللہ تعالی نے جو اولاد رکھی ہے وہ بھی انہیں اللہ تعالی نے ہی عطا کی ہے، اور انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی ناراضی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت پر ناک بھنو چڑھائے۔
یہاں اللہ تعالی نے آغاز ہی بیٹیوں سے کیا ہے۔۔۔
مطلب یہ ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر ناراضی کا اظہار دورِ جاہلیت کا طریقہ ہے، اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ان کی مذمت فرمائی کہ: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ * يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ یعنی : جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصے سے بھرا ہوا ہوتا ہے٭ وہ ملنے والی خوش خبری کی برائی سے لوگوں سے چُھپتا پھرتا ہے کہ اسے ذلت اٹھانے کے لیے پالے پوسے یا مٹی میں درگور کر دے۔ یقیناً ان کے کیے ہوئے فیصلے نہایت برے ہیں۔
پھر اللہ تعالی نے بیویوں کے بارے میں فرمایا: فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ترجمہ: اگر تم انہیں ناپسند کرو، تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر رہے ہو اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی زیادہ خیر شامل فرما دے۔
تو اسی طرح معاملہ بیٹیوں کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی باپ کے لیے ان بیٹیوں کی وجہ سے دنیا و آخرت میں ڈھیروں بھلائیاں بنا دے۔ بیٹیوں کی پیدائش پر ناگواری نہایت ہی برا رد عمل ہے، اور اس کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی پسند اور رضا کو اپنے لیے ناگوار سمجھے۔
صالح بن احمد کہتے ہیں کہ: جب میرے والد صاحب کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو کہا کرتے تھے: انبیائے کرام کی بھی اولاد بیٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔۔۔
یعقوب بن بختان کہتے ہیں: میری مسلسل سات بیٹیاں پیدا ہوئیں، تو جب بھی میری بیٹی پیدا ہوتی تو میں امام احمد بن حنبل کے پاس جاتا تو آپ مجھے کہتے: “ابو یوسف! انبیائے کرام کے ہاں بیٹیاں ہوتی ہیں۔” ان کی اس بات سے میری پریشانی ختم ہو جاتی تھی۔” ختم شد
“تحفة المودود” (ص 24 – 31)
اللہ تعالی نے اولاد کے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔
چنانچہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کیا کرو۔)اس حدیث کو امام بخاری: (2587) اور مسلم : (4181) نے روایت کیا ہے۔
کچھ اہل علم اس حد تک عدل کرنے کے قائل ہیں کہ بچوں کو بوسہ دیتے ہوئے بھی عدل کیا جائے، یعنی اگر ایک بچے کو بوسہ دیا تو دیگر تمام بچوں اور بچیوں کو بھی بوسہ دے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بعض اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، ان کے ہاں اولاد کے مابین عدل کرنا اچھا عمل ہے۔ جبکہ کچھ نے یہاں تک کہا ہے کہ: اولاد کو بوسہ دیتے ہوئے بھی عدل کیا جائے، جبکہ بعض کہتے ہیں کہ بچوں کو عطیہ اور تحفہ دیتے ہوئے عدل کیا جائے، یعنی بیٹے اور بیٹیوں سب کو تحفہ دے۔” ختم شد
“سنن ترمذی” (3 / 640)
لہذا صرف بیٹوں کو بوسہ دینا اور انہی کے ساتھ مشفقانہ رویہ اپنانا بیٹیوں کو ان سے محروم رکھنا ظلم ہے، عدل نہیں ہے۔
سوم:
حدیث مبارکہ: “میں نے جہنم میں تم عورتوں کی اکثریت دیکھی ہے” کا معنی
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتلایا کہ جہنم میں اکثریت خواتین کی ہے، تو اس چیز کا عورتوں سے محبت نہ کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، یا بچیوں کی پیدائش کے ساتھ بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث صحابیات کے سامنے اس وقت رکھی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں نیکیوں کی ترغیب دلا رہے تھے، اس لیے بیان نہیں فرمائی کہ آپ ان کی مذمت کر رہے تھے۔
جیسے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خواتین کی جماعت! صدقہ خیرات کرو، اس لیے کہ میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم جہنم کی اکثریت ہو)
اس پر صحابیات نے کہا: یا رسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم لعنت بہت زیادہ کرتی ہو، اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ اے عورتوں کی جماعت! میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو اچھے بھلے مرد کی عقل کو بھی چٹ کر جاتی ہو۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1462) اور مسلم : (80) نے روایت کیا ہے۔
لیکن اگر کوئی عورت بھی اچھے عمل کرے تو اسے بھی مرد کی طرح جنت کی خوش خبری دی گئی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
ترجمہ: اور جو بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیکی کرے تو یہی ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کی پشت پر سوراخ جتنا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ [النساء: 124]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
مفہوم : جس مرد یا عورت نے بھی ایمان کی حالت دمیں اچھا عمل کیا تو ہم اسے لازمی طور پر بہترین زندگی دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کا بدلہ ضرور دیں گے۔ [النحل: 97]
کیا اللہ تعالی کی طرف سے بنی نوعِ آدم کی عزت افزائی میں عورتیں بھی شامل ہیں؟
فرمانِ باری تعالی: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
ترجمہ: یقیناً ہم نے بنی آدم کی تکریم فرمائی، اور ہم نے انہیں بر و بحر میں سوار کیا، نیز انہیں بہترین رزق عطا فرمایا، اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر یقینی طور پر فضیلت عطا فرمائی۔[الاسراء: 70]
تو اس تکریم میں خواتین بھی برابر کی حقدار ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (خواتین بھی مردوں کی بہنیں ہیں۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (236) اور ترمذی رحمہ اللہ : (113) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ : (6 / 860)صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حدیث مبارکہ کے الفاظ: “خواتین بھی مردوں کی بہنیں ہیں۔” کا مطلب یہ ہے کہ: خواتین بھی تخلیق اور مزاج میں مردوں جیسی ہیں کہ گویا انہیں مردوں سے مشتق کیا گیا ہے۔
اس حدیث میں کچھ فقہی مسائل بھی بیان ہوئے ہیں کہ: یہاں قیاس کا ثبوت موجود ہے۔ اسی طرح پیش آمدہ مسائل میں [فقہی یا عدالتی ] نظیر کو نظیر کے ساتھ ملا کر حکم کشید کیا جائے، اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب شریعت میں مخاطب مرد کو کیا جائے تو وہی حکم خواتین کے لیے بھی ہوتا ہے۔ الا کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں دیگر دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہو کہ یہ حکم صرف مردوں کے لیے ہے یا عورتوں کے لیے۔” ختم شد
ماخوذ از: “معالم السنن” (1 / 79)
اسلام میں عزت افزائی اور تکریم کی اصل بنیاد تقوی ہے، مردانگی عزت افزائی کی وجہ نہیں ہے، چنانچہ مرد ہو یا عورت کوئی بھی جس قدر صاحبِ تقوی ہو گا اسی قدر اللہ تعالی کے ہاں مکرم و معزز ہو گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
ترجمہ: لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہیں خاندان اور قبائل میں تقسیم کیا تا کہ تم باہمی تعارف کر سکو، یقیناً تم میں سے اللہ تعالی کے ہاں معزز وہی ہے جو جس قدر متقی ہے، یقیناً اللہ تعالی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ [الحجرات: 13]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ! سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو سب سے زیادہ متقی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3353) اور مسلم : (2378) نے روایت کیا ہے۔
واللہ اعلم