الحمد للہ.
الحمد اللہاگرتو ملاقاتوں میں یہ تبادلہ وعظ ونصحیت اور راہنمائ اور نیکی اوربھلائ اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرنے کے لۓ ہے پھر تو یہ بہت اچھا اور اس کا حکم بھی ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
( آپس میں میرے لۓ محبت کرنے والوں اور میرے لۓ قلاقات و زیارت کرنے والوں اور میرے لۓ مجلس میں بیٹھنے والوں اور میری راہ میں خرچ کرنے والوں کے لۓ میری محبت واجب ہوگئ ) ۔
اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند سے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( سات آدمیوں کو اللہ تعالی اس دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرماۓ گا جس دن کہ کسی قسم کا کوئ سایہ نہیں ہوگا ) ان میں ان دوآدمیوں کا ذکر کیا ( وہ دو آدمی جنہوں نے آپس میں اللہ تعالی کے لۓ محبت کی اسی پر جمع ہوۓ اور اسی پر ایک دوسرے سے جدا ہوۓ ) ۔
اس حدیث میں مثال تو مردوں کی بیان کی گئ ہے لیکن اس کا حکم مرد وعورت دونوں کے لۓ عام ہے ، تو اگر کسی عیسائ یا مسلمان عورت کی زیارت دعوت وتبلیغ اور بھلائ سکھانے کے لۓ اور خیر کی راہنمائ کرنے کے مقصد کے ساتھ کی جاۓ اور اس میں دنیا کا طمع ولالچ اور اللہ تعالی کے امور کے ساتھ تساہل اختیار نہ کیا جاۓ تو یہ سب کچھ اچھا اور بہتر ہے ۔
اور اگر کوئ مسلمان عورت اپنی کسی مسلمان بہن سے اللہ تعالی کے لۓ ملتی اور اسے بے پردگی سے بچنے اور اللہ تعالی نے جو کچھ حرام کیا ہے ان میں تساہل کرنے اور سب معاصی اور گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرتی ہے ، اور یا پھر اپنی کسی عیسائ یا کسی اور مذھب کی ( بدھ مت وغیرہ) پڑوسن سے اس لۓ ملتی ہے کہ اسے وعظ ونصیحت کرے اور اسے دین کی تعلیم دے اور اس کی راہنمائ کرے تو یہ بہت ہی اچھا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مصداق بنے گی ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( دین خیر خواہی کا نام ہے ، دین خیر خواہی کا نام ہے ، دین خیر خواہی کا نام ہے ، ) اگرتو وہ اس نصحیت کو قبول کرتی ہے تو الحمد للہ ، اوراگر قبول نہیں کرتی تو اس سے ملاقات اور زیارت ختم کردے جس کا کوئ فائدہ نہیں ۔
اورایسی ملاقاتیں جو کہ دنیاوی غرض اور کھیل کود اور گپیں ہانکنے اور کھانے وغیرہ کے لۓ ہوں توکافر اورعیسائ وغیرہ عورتوں سے اس طرح کی ملاقاتیں کرنا جائز نہیں کیونکہ بعض اوقات یہ ملاقاتیں مسلمان کے دینی اور اخلاقی فساد کا باعث بن سکتی ہیں ، اس لۓ کہ کفار ہمارے دشمن اور وہ ہم سے بغض رکھتے ہیں ، اس لۓ ہمارے لائق نہیں کہ ہم انہیں اپنا دوست اور رازدان بناتے رہیں ۔
لیکن اگرتو ملاقات وعظ ونصحیت اور راہنمائ اور نیکی اوربھلائ اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرنے کے لۓ اور شر سے بچانے کے لۓ ہے پھر تو یہ بہت اچھا کام اور اس کا حکم بھی ہے جیساکہ اوپربیان بھی ہوچکاہے ۔
اور اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ الممتحنۃ میں ارشاد فرمایا ہے :
( مسلمانوں ) تمہارے لۓ ابراھیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں میں بہترین نمونہ ہے ، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا یہ کہہ دیا کہ ہم تو تم سے اور جن جن کی اللہ تعالی کے علاوہ تم عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ، ہم تمہارے (عقائد) کے منکر ہیں جب تک تم اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لۓ بغض وعداوت ظاہر ہوگئ ہے آیت کے آخر تک ۔.