جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نماز ميں صفيں سيدھى كرنے كا وجوب اور اس كا معنى

36881

تاریخ اشاعت : 31-03-2007

مشاہدات : 7919

سوال

كيا نماز باجماعت ميں صفيں سيدھى كرنا واجب ہيں، يعنى اگر نمازى صفيں سيدھى نہ كريں تو وہ گنہگار ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اسلام نے نمازيوں كى صفيں سيدھى كرانے كا بہت زيادہ خيال ركھا اور اسے اولى قرار ديتے ہوئے صفيں سيدھى كرنے كا حكم ديا ہے، اور صفيں سيدھى كرنے كى فضيلت بيان كرتے ہوئے اس كا اہتمام كرنے كا كہا ہے.

چانچہ حديث ميں آيا ہے كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنى صفيں برابر كرو، كيونكہ صفيں برابر كرنا نماز كو مكمل كرنے ميں سے ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 690 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 433 ).

اور بخارى كى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" تم اپنى صفيں برابر كرو كيونكہ صفيں برابر كرنا نماز قائم كرنے ميں سے ہے "

ابو مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں ہمارے كندھوں كو چھوتے اور فرماتے:

" برابر ہو جاؤ، اور ايك دوسرے سے عليحدہ نہ كھڑے نہ ہوؤ وگرنہ تمہارے دلوں ميں اختلاف اور پھوٹ پڑ جائيگى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 432 ).

نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارى صفيں اس طرح سيدھى اور برابر كرايا كرتے تھے جس طرح كہ اس سے تير سيدھا كرنا ہو، حتى كہ آپ نے ديكھا كہ ہم اسے سيدھا كرنا سيكھ چكے ہيں، پھر ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز كے ليے آئے اور تكبير كہنے ہى والے تھے كہ ايك شخص كا سينہ صف سے باہر نكلا ہوا ديكھ ليا تو فرمانے لگے:

" اللہ كے بندو! تم اپنى صفيں برابر كر لو وگرنہ اللہ تعالى تمہارے درميان پھوٹ ڈال دے گا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 717 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 436 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " شرح مسلم " ميں كہتے ہيں:

قولہ: " ہمارى صفيں اس طرح برابر كراتے كہ اس سے تير سيدھا كرنا ہو "

القداح وہ لكڑى ہے جس سے تير بنايا جائے اور اس كے پر وغيرہ برابر كيے جائيں، اس كا معنى يہ ہے كہ: صف برابر كرنے ميں اتنا مبالغہ كرتے كہ اس سے تير سيدھا كرنا ہو، صف اتنى معتدل اور سيدھى و برابر ہوتى" انتہى.

صفيں سيدھى اور برابر كرنے كے وجوب ميں يہ نصوص واضح ہيں، امام بخارى رحمہ اللہ تعالى صحيح بخارى ميں كہتے ہيں:

" صفيں برابر نہ كرنے والے كے گناہ كے متعلق باب "

اس باب ميں اپنى سند كے ساتھ نعمان بن بشير انصارى اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" وہ مدينہ تشريف لائے تو ان سے كہا گيا: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك كے بعد آپ ہم ميں كونسى ايسى چيز پاتے ہيں جو آپ كو اچھى نہ لگى ہو ؟

تو انہوں فرمايا: كچھ بھى نہيں صرف اتنا ہے كہ: تم صفيں برابر نہيں كرتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 724 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:

" احتمال ہے كہ امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم كے فرمان " اپنى صفيں برابر كرو " ميں سے صيغہ امر سے وجوب اخذ كيا ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان " تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے " كے عموم سے اخذ كيا ہو اور صفيں برابر نہ كرنے كى وعيد ميں آنےوالى احاديث سے بھى.

تو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كے ہاں ان قرائن كے ساتھ يہ راجح ہوا كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ كا انكار اور كراہت واجب كو ترك كرنے كى بنا پر تھا، اگرچہ بعض اوقات سنت كو ترك كرنے پر بھى كراہت و نكارت ہو سكتى ہے.

اور صفيں برابر كرنے كے وجوب والے قول كے باوجو اگر كوئى شخص صف برابر نہيں كرتا تو اس كى نماز دو جھت كے اختلاف كى بنا پر صحيح ہے اس كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ نے ان كا صفيں برابر نہ كرنے پر تو نكارت كى ليكن انہيں نماز لوٹانے كا حكم نہيں ديا" انتہى

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" و قولہ: " وگرنہ اللہ تعالى تمہارے درميان اختلاف اور پھوٹ ڈال دے گا"

يعنى: تمہارى وجھات نظر ميں اختلاف ڈال دے گا حتى كہ تمہارے دلوں ميں پھوٹ پڑ جائيگى، اور بلاشك و شبہ يہ وعيد صفيں برابر نہ كرنے والوں كے ليے ہے، اسى ليے اہل علم نے صفيں برابر كرنے كو واجب كہا ہے، اور انہوں نے اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كے متعلق حكم دينے ميں امر كا صيغہ اور اس كى مخالفت كرنے پر وعيد سنانے سے استدلال كيا ہے.

اور جس چيز پر امر كا صيغہ اور اس كى مخالفت ميں وعيد سنائى جائے تو اسے صرف سنت ہى كہنا ناممكن ہے.

اسى ليے اس مسئلہ ميں راجح قول صفوں كو برابر كرنا واجب ہے، اور اگر جماعت ميں لوگ صفيں برابر نہ كريں تو گنہگار ہونگے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى كلام كا ظاہر تو يہى ہے" انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 6 ).

صفيں اس طرح برابر كرنا واجب ہيں كہ نہ تو كسى كا سينہ كسى دوسرے شخص سے آگے ہو اور نہ ہى ٹخنہ.

عون المعبود ميں ہے:

" صف برابر كرنےسے مراد يہ ہے كہ: كھڑے ہونے والوں كا ايك ہى سمت ميں برابر كھڑے ہونا " انتہى

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" صف سيدھى برابرى كے ساتھ ہو گى، وہ اس طرح كہ كوئى بھى كسى دوسرے سے آگے نہ نكلا ہوا ہو.

كيا اس ميں پاؤں اور ٹانگ معتبر ہو گا ؟

جواب:

بدن كے اوپر والے حصہ ميں كندھے، اور نچلے حصہ ميں ٹخنے معتبر ہونگے.

ٹخنے اس ليے معتبر ہيں كہ يہ اس عمود ميں جس پر سارا بدن اعتماد كرتا ہے، كيونكہ ٹخنہ پنڈلى كے نچلے حصہ ميں ہے، اور پنڈلى جسم كا عمود ہے تو يہى معتبر بھى ہو گا، ليكن پاؤں كا اگلا اور پچھلا حصہ معتبر اس ليے نہيں كہ يہ ايك دوسرے سے مختلف ہوتى ہيں، بعض كى لمبى اور بعض كى چھوٹى اس ليے ٹخنہ معتبر شمار ہو گا.

ايك اور برابرى بھى جو كمال كے معنى ميں ہے: يعنى كمال كے معنى ميں برابرى اور سدھائى، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جب وہ اپنى جوانى كو پہنچ گئے اور توانا ہوگئے القصص ( 14 ).

يعنى: مكمل جوان ہو گئے، لہذا جب ہم كمال ميں معنى ميں صفر برابر كرنا كہيں؛ تو اس كى معنى يہ نہيں كہ وہ برابرى پر ہى مقتصر ہے، بلكہ وہ چند اشياء پر مشتمل ہو گى:

1 - برابرى ميں صف سيدھى كرنا: راجح قول ميں يہ واجب ہے، اس كا بيان اوپر ہو چكا ہے.

2 - صف ميں بالكل خلا نہ چھوڑنا اور ايك دوسرے كے ساتھ مل كر كھڑے ہونا، يہ اس كے كمال ميں سے ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا حكم ديا كرتے تھے، اور انہوں نے اپنى امت كو كہا كہ صف اس طرح بنايا كرو جس طرح فرشتے اپنے رب كے پاس صف بندى كرتے ہيں، وہ ايك دوسرے سے مل كر كھڑے ہوتے ہيں، اور پہلے پہلى صف مكمل كرتے ہيں، ليكن يہاں ملنے سے مراد يہ ہے كہ شيطان كے ليے خلاء اور خالى جگہ نہ چھوڑى جائے، اس سے يہ مراد نہيں كہ ايك دوسرے سے دھكم پيل كريں اور اس كے اوپر ہى چڑھ جائيں، كيونكہ ملنے اور دھكم پيل ميں فرق ہے.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمايا كرتے تھے:

" صفيں صحيح كرو، اور كندھوں كو برابر كرلو.... اور شيطان كے ليے خالى جگہ مت چھوڑو "

يعنى تمہارے درميان ہو خالى جگہ نہ ہو جہاں سے شيطان داخل ہو سكے؛ كيونكہ بھيڑ چھوٹے بچوں كى طرح شيطان صفوں كے درميان داخل ہو جاتا ہے تا كہ وہ نمازيوں كى نماز خراب كرے.

3 - پہلے اگلى صفيں مكمل كرنى، كيونكہ يہ صفيں برابر اور سيدھى كرنے ميں شامل ہے، لہذا پہلى صف مكمل كيے بغير دوسرى صف بنانى جائز نہيں، اور دوسرى صف مكمل كيے بغير تيسرى صف نہيں شروع كرنى چاہيے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلى صف مكمل كرنے كے متعلق فرمايا:

" اگر لوگوں كو اذان اور پہلى صف كے اجروثواب كا علم ہو جائے تو اگر انہيں اس كے ليے قرعہ اندازى بھى كرنا پڑے تو وہ قرعہ اندازى كريں "

يعنى: وہ اس كے ليے قرعہ اندازى كريں؛ لہذا اگر دو شخص پہلى صف كےليے آئيں تو ايك كہے پہلى صف ميں آپ سے ميرا زيادہ حق ہے، اور دوسرا كہے ميں زيادہ حقدار ہوں، تو وہ كہے چلو ہم قرعہ اندازى كر ليتے ہيں جس كے نمام قرعہ نكلے وہ خالى جگہ ميں چلا جائے.

آج تو شيطان بہت سے لوگوں سے كھيل رہا ہے، وہ پہلى صف ابھى آدھى خالى ہوتى ہے تو پھر بھى دوسرى صف بنا ليتے ہيں، اور جب نماز كى اقامت ہوتى ہے تو انہيں كہا جاتا ہے، پہلے اگلى صف مكمل كرو، تو وہ حيران و پريشان ہو كر ادھر ادھر ديكھنے لگتے ہيں!!

4 - صفوں كو سيدھا اور برابر كرنے ميں يہ بھى شامل ہے كہ: صف ايك دوسرے كے قريب بنائى جائے، اور صف امام كے قريب ہو؛ كيونكہ وہ ايك جماعت ہيں، اور جماعت اجتماع سے ماخوذ ہے، دورى ہوتے ہوئے كامل اجتماع نہيں ہوتا.

اس ليے صفيں جتنى ايك دوسرے سے قريب ہونگى، اور امام كے جتنى قريب ہوں اتنا ہى افضل اور اجمل ہے، ہم ديكھتے ہيں كہ بعض مساجد ميں امام اور پہلى صف كے مابين ايك يا پھر دو صفوں كا فاصلہ ہوتا ہے، يعنى امام بہت زيادہ آگے ہو كر كھڑا ہوتا ہے، ميرے خيال ميں ايسا جھالت كى بنا پر ہو رہا ہے.

چنانچہ امام كے ليے سنت يہ ہے كہ وہ مقتديوں كے قريب كھڑا ہو، اور مقتدي بھى امام كے قريب ہوں، اور صفيں ايك دوسرے كے قريب ہونى چاہيں.

اور اس كى حد يہ ہے كہ صفوں كا آپس ميں اتنا فاصلہ ہو جس ميں سجدہ ہو سكے، يا پھر اس سے كچھ زيادہ.

5 - صفوں كى برابرى اور سدھائى اور كمال ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

انسان امام كے قريب ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرے قريب بالغ اورعقلمند لوگ كھڑے ہوں "

جتنا بھى امام كے قريب ہو اتنا ہى زيادہ بہتر اور اولى ہے، اسى ليے حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ نے نماز جمعہ ميں امام كے قريب بيٹھنے پر ابھارا اور اس كى ترغيب دى ہے، كيونكہ جمعہ ميں امام كے قريب بيٹھنے سے نماز جمعہ ميں بھى امام كے قريب كھڑا ہوا جائيگا، اور خطبہ جمعہ كے دوران تو امام كے قريب بيٹھنا مطلوب اور اس كا حكم ہے، جس ميں بعض لوگ سستى سے كام ليتے ہيں، اور اس كى كوشش ہى نہيں كرتے.

6 - صفوف كو سيدھا اور برابر كرنے ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

صف كے دائيں حصہ كو بائيں حصہ پر فضيلت دى جائے، يعنى: صف كا داياں حصہ بائيں حصے سے افضل اور بہتر ہے، ليكن يہ مطلقا نہيں، جيسا كہ پہلى صف ميں ہے؛ كيونكہ اگر يہ پہلى صف كى طرح مطلق ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ فرماتے:

" پہلے داياں حصہ پورا كرو"

جيسا كہ آپ نے فرمايا تھا:

" پہلے اگلى صفيں پورى اور مكمل كرو، پھر اس كے ساتھ والى "

بلكہ ايك صف ميں جب داياں اور باياں دونوں حصے برابر ہوں تو داياں بائيں حصے سے افضل ہے، مثلا اگر دائيں اور بائيں دونوں طرف پانچ اشخاص ہوں، اور اس كے بعد گيارواں شخص آئے تو ہم كہينگے: آپ دائيں طرف جاؤ؛ كيونكہ برابر يا تقريبا برابر ہونے كى صورت ميں دائيں طرف والا حصہ افضل ہے، اس طرح كہ صف كے دائيں اور بائيں ميں كوئى زيادہ فرق نہ ہو.

ليكن امام سے دورى كى صورت ميں اگر بائيں طرف امام كے قريب جگہ ہو تو بائيں طرف والى قريب جگہ دائيں طرف والى دور سے بہتر اور افضل ہے اس كى دليل يہ ہے كہ:

جماعت كے شروع ميں مشروع يہ تھا كہ اگر وہ تين اشخاص ہوں تو امام ان كے درميان كھڑا ہو، يعنى وہ دونوں اشخاش كے درميان كھڑا ہو، تو يہ اس كى دليل ہے كہ داياں پہلو على الاطلاق افضل نہيں؛ كيونكہ اگر يہ مطلقا افضل ہوتا تو دونوں مقتدى امام كى دائيں طرف كھڑے ہوتے، ليكن مشروع يہ تھا كہ ايك امام كے دائيں اور دوسرا بائيں كھڑا ہو تا كہ امام درميان ميں ہو سكےاور كسى ايك پر بھى ظلم نہ ہو.

7 - اور صفوف كى برابرى ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

عورتيں عليحدہ كھڑى ہوں؛ يعنى عورتيں مردوں كے پيچھے صفيں بنائيں اور مردوں كے ساتھ اختلاط نہ كريں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مردوں كے ليے سب سے بہترين پہلى صف ہے، اور سب سے بدترين آخرى صف، اور عورتوں كى سب سے افضل آخرى صف اور سب سے پہلى بدترين ہے "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا كہ مردوں سے عورتوں كى صف جتنى بھى دور ہو گى اتنى ہى افضل ہے.

لہذا ہم عورتوں كى صفيں مردوں كے بعد دور ركھيں كيونكہ عورتوں كا مردوں كے قريب ہونا فتنہ اور فساد كا باعث ہے، اور اس سے بھى سخت يہ ہے كہ يہ مردوں كے ساتھ عورتوں كا ہونا، اور عورتوں كى صف مردوں كے درميان ہونے سے اختلاط پيدا ہوتا ہے، جو كہ صحيح نہيں، بلكہ ايسا كرنا فتنہ كے خدشہ كے ساتھ ساتھ حرام ہونے كے زيادہ قريب ہے.

ليكن فتنہ كا خدشہ نہ ہونے كى صورت ميں خلاف اولى ہے، يعنى: اگر عورتيں اس كى محرم ہوں تو يہ خلاف اولى اور افضليت كے خلاف ہے"

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 7 - 13 ) مختصر.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب