الحمد للہ.
اسے خون فروخت كرنا شمار كيا جائيگا، اور علماء كرام كے اجماع كے مطابق خون فروخت كرنا حرام ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:
" خون فروخت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ صحيح بخارى ميں ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ انہوں نے ايك سنگى لگوانے والا خريدا اور اس كى سنگى لگانے والى اشياء توڑ ڈالى جب اس كے متعلق ان سے دريافت كيا گيا تو وہ كہنے لگے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خون كى قيمت لينے سے منع فرمايا ہے "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں لكھتے ہيں:
" اس سے خون فروخت كرنے كى حرمت مراد ہے، جس طرح مردار اور خنزير كى فروخت حرام ہے، اور بالاجماع يہ حرام ہے، ميرى مراد خون فروخت كرنا اور اس كى قيمت لينا حرام ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للحبوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 71 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" دم مسفوح ( يعنى بہنے والے خون ) كى بيع حرام ہے اور يہ واقع ہي نہيں ہوتى، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يا پھر دم مسفوح ہو .....
اور ابن منذر، امام شوكانى رحمہما اللہ نے اسے فروخت كرنے كى تحريم پر اہل علم كا بيان كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 9 / 148 ).
واللہ اعلم .