جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

اللہ تعالى كے نام پر مشتمل اوراق پھينكنا

سوال

ميرا نام " عبد القادر " ہے اور بہت سے سركارى كاموں اور كاغذات ميں مثلا مجھے كوئى درخواست ديتے وقت اپنا نام لكھنا پڑتا ہے، اور بعد ميں ہو سكتا ہے محكمہ والے اس درخواست كو ردى كى ٹوكرى ميں پھينك ديں، تو كيا اس كى ذمہ دارى مجھ پر عائد ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جن كاغذات اور معاملات كى آپ كو ضرورت ہوتى ہے، اور آپ نے جو كسى اور كو پيش كرنا ہوتے ہيں ان پر اپنا نام لكھنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ اس كا گناہ تو اس شخص كو ہو گا جو انہيں گندگى والى جگہ پر پھينكےگا؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں لفظ جلالہ كى اہانت ہوتى ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا شادى كارڈ پر بسم اللہ لكھنى جائز ہے، كيونكہ بعد ميں يہ كارڈ سڑك يا ردى كى ٹوكرى ميں پھينك ديے جاتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

كارڈ اور دوسرے رسائل وغيرہ كے شروع ميں بسم اللہ لكھنى مشروع ہے، اس كى دليل درج ذيل روايت ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر اہم كام جو بسم اللہ سے شروع نہ كيا گيا ہو تو وہ ناقص ہے "

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے تمام خطوط بسم اللہ سے شروع كيا كرتے تھے، اور جسے بھى اللہ تعالى كے ذكر يا قرآنى آيات پر مشتمل كوئى كارڈ يا خط ملے تو اسے چاہيے كہ وہ يہ كارڈ ردى كى ٹوكرى يا گندى جگہ پر مت پھينكے، يا اسے ايسى جگہ پر نہ ركھے جہاں وہ پسند نہ كرتا ہو، اور اسى طرح اخبارات اور ميگزين وغيرہ بھى گندگى والى جگہ اور ردى كى ٹوكرى ميں پھينك كر ان كى توہين كرنى جائز نہيں اور نہ ہى انہيں كھانا كھانے كے ليے بطور دسترخوان بنا كر بچھانا جائز ہے كيونكہ ان ميں اللہ كا ذكر اور نام ہے، اور اگر كوئى ايسا كرے تو وہ گنہگار ہو گا، ليكن اسے لكھنے والے پر كوئى گناہ نہيں " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ عبد العزيز بن باز ( 5 / 427 ) طبع دوم

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب