اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

كيا عورت كے پردہ كے ليے سياہ رنگ ضرورى ہے

39570

تاریخ اشاعت : 12-05-2010

مشاہدات : 11971

سوال

كيا حجاب اور پردہ كى شروط كے ساتھ مختلف رنگ كے لباس پہننا حرام ہيں، اور اگر حرام ہے تو كيا اس كے متعلق كوئى آيت يا حديث ملتى ہے، اور پردہ فى نفسہ زينت نہ ہو سے كيا مراد ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 6991 ) كے جواب ميں مسلمان عورت كے پردہ كى شروط بيان ہو چكى ہيں، آپ ا سكا مطالعہ كريں.

اور ان شروط ميں يہ نہيں كہ پردہ كے ليے استعمال ہونے والا كپڑا سياہ رنگ كا ہو، چنانچہ عورت كے ليے كسى بھى رنگ كا كپڑا استعمال كرنا جائز ہے، ليكن وہ ايسا رنگ نہ پہنے جو مردوں كے مخصوص ہو، اور نہ ايسا كپڑا پہنے جو خود زينت ہو، يعنى: اس كے اوپر كڑھائى وغيرہ كر كے اسے مزين كيا گيا ہو، كہ وہ مردوں كے ليے التفات نظر كا باعث بنے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اگر ظاہر كپڑے مزين اور كڑھائى والے ہوں تو اس آيت كا عموم ا نكو بھى شامل ہے.

اور سنن ابو داود ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اللہ كى بنديوں كو اللہ كى مسجدوں سے منع مت كرو، ليكن جب وہ باہر نكليں تو خوشبو لگا كر نہ نكليں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 565 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 515 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عون المعبود ميں اس حديث كى شرح ميں درج ہے:

" وھن متفلات " يعنى انہوں نے خوشبو نہ لگا ركھى ہو..... اور انہيں ا سكا حكم اس ليے ديا گيا اور خوشبو لگانے سے منع اس ليے كيا گيا تا كہ وہ اپنى خوشبو سے مردوں كو حركت ميں نہ لائيں، اور شہوت كو حركت دينے والى اشياء بھى خوشبو كے معنى كے ساتھ ملحق ہونگى مثلا: لباس كى خوبصورتى، اور جس زيور كا اثر ظاہر ہو رہا ہو، اور اعلى قسم كى زيبائش اھـ

اس ليے عورت پر واجب ہے كہ وہ جب مردوں كے سامنے آئے تو ايسے نقش و نگار اور كڑھائى والے كپڑوں سے اجتناب كرے جو مردوں كے ليے عورت كى جانب التفات نظر كا باعث بنتے ہوں.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" عورت كے ليے ايسا لباس پہن كر باہرنكلنا جائز نہيں جس سے نظريں عورت كى جانب اٹھيں، كيونكہ ايسا كرنے سے مرد حضرات اس عورت كى جانب متوجہ ہونگے، اور فتنہ ميں پڑينگے، اور ہو سكتا ہے يہ اس كى ہتك عزت كا بھى باعث بن جائے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحو العلميۃ والافتاء ( 17 / 100 ).

اور فتاوى ميں يہ بھى درج ہے:

" مسلمان عورت كے لباس كے ليے سياہ رنگ خاص نہيں، بلكہ اس كے ليے كسى بھى رنگ كا لباس پہننا جائز ہے، صرف شرط يہ ہے كہ وہ ساتر ہو اور اس ميں مردوں سے مشابہت نہ ہوتى ہو، اور نہ ہى وہ تنگ ہو كہ عورت كے اعضاء كى تحديد كرے، اور نہ ہى اتنا باريك ہو كہ جلد كى رنگت واضح ہوتى ہو، اور نہ ہى وہ لباس فتنہ كو ابھارنے والا ہو " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 108 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

" عورتوں كے ليے سياہ لباس پہننا متعين نہيں، بلكہ وہ دوسرے رنگ بھى پہن سكتى ہيں جو عورتوں كے ليے مخصوص ہيں، اور ملتف نظر نہيں اور نہ ہى فتنہ كوابھارنے كا باعث ہوں " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 109 ).

اكثر عورتوں نے پردہ كے ليے سياہ رنگ اختيار كر ركھا ہے، يہ اس ليے نہيں كہ ايسا كرنا واجب ہے، بلكہ يہ رنگ زينت سے زيادہ دور ہے، اور يہ بھى وارد ہے كہ صحابيات سياہ چادروں كے ساتھ پردہ كيا كرتى تھيں.

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" جب يہ آيت:

وہ اپنى چادريں اپنے اوپر لٹكا ليں .

نازل ہوئى تو انصار كى عورتيں باہر نكلتى تو اس طرح ہوتى كہ چادروں كى بنا پر ان كے سروں پر كوے ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4101 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

اور مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:

" اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ پردہ اور لباس سياہ رنگ كا ہوتا تھا " اھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات