جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بيٹوں كے اموال ميں زكاۃ

4016

تاریخ اشاعت : 27-11-2005

مشاہدات : 4337

سوال

ميں نے اپنے چھوٹے بيٹوں كے نام سے سرمايہ كارى كمپنيوں ميں كچھ رقم لگا ركھى ہے، كيا زكاۃ كى ادائيگى كے وقت ہم اسے جمع كريں، يا كہ ہر ايك كى زكاۃ عليحدہ ادا كى جائے، يہ علم ميں رہے كہ جب ہم اس سارى رقم كو جمع كريں تو وہ نصاب كو نہيں پہنچتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:

ہر انسان كا مال خاص ہے، اور جب وہ نصاب كو پہنچے تو اس ميں زكاۃ ہے وگرنہ نہيں، ليكن كيا اس كى اور بھى اولاد ہے، اور اسے اس نے اتنى ہى رقم دى ہے جتنى ان بچوں كو دى ہے ؟

اگر تو اس كے علاوہ بھى اس كے بچے ہيں اور انہيں اس نے رقم نہيں دى تو اس شخص كو اللہ سے ڈرنا چاہيے، اور ان كے مابين عدل كرنا چاہيے" مرد كو دو عورتوں كى مثل ہے "

اور اگر اس كے پاس ان كے علاوہ نہيں ہے تو پھر معاملہ واضح ہے، اور اگر اس كے پاس ان بچوں كے علاوہ اور بھى ہيں اور اس نے انہيں بھى اتنا ہى مال ديا ہے تو اس نے عدل سے كام ليا ہے، اور اس كے ذمہ كچھ نہيں..

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد