بدھ 12 جمادی اولی 1446 - 13 نومبر 2024
اردو

سر چکرانے کی دائمی بیماری ہے تو کیا روزہ نہ رکھے؟ اور اگر جنبی حالت میں اسے دورہ پڑ جائے اور غسل کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پھر کیا حکم ہو گا؟

405768

تاریخ اشاعت : 23-03-2024

مشاہدات : 1449

سوال

میرے خاوند کو مسلسل چکر آتے ہیں، جو کہ مخصوص اعصاب میں سوزش کی وجہ سے ہوتے ہیں، رمضان میں روزے کے ساتھ ان کی طبیعت مزید خراب ہو جاتی ہے، چکرانے کی وجہ سے نماز فجر کے لیے اٹھنا بھی ممکن نہیں ہوتا، اور جب انہیں چکر آ رہے ہوں تو جسمانی توازن بھی کھو بیٹھتے ہیں، اور اس حالت میں انہیں بے ہوشی جیسی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے، وہ میری کسی بات کا جواب بھی نہیں دیتے، نہ ہی میری بات سمجھ سکتے ہیں۔ میرا خاوند الحمد للہ دیندار اور مذہبی ہے، انہیں نماز کے لیے نہ اٹھ سکنے پر بہت دکھ ہوتا ہے، خصوصاً ماہ رمضان میں۔ میں ان کی وضو کرنے کے لیے مدد کرتی ہوں اور وہ لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھتے ہیں، لیکن بسا اوقات حالت جنابت میں ہی اذان کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ غسل نہیں کر سکتے، اس لیے چکرانے کا دورہ ختم ہونے پر ہی نماز فجر ادا کر پاتے ہیں، کبھی تو دورہ فجر سے لے کر مغرب تک جاری رہتا ہے اس لیے افطاری کے بعد ساری نمازیں قضا ادا کرتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر ہو گا کہ جب سر چکرانے لگے تو روزہ توڑ دیں تا کہ نمازیں تو وقت پر ادا کر سکے؟ اور اگر حالتِ جنابت میں چکر آنا شروع ہو جائیں تو کیا نماز کے لیے صرف وضو کرنا کافی ہو گا تا کہ نماز فجر کا وقت نکلنے سے پہلے نماز ادا کر لیں، یا نماز کے لیے غسل کرنا لازم ہو گا؟ وہ مجھے ہمیشہ بتلاتے ہیں کہ چکروں کی حالت میں ادا کی ہوئی نماز میں بالکل توجہ مرکوز نہیں کر پاتا نا ہی مجھے خشوع حاصل ہوتا ہے، انہیں اپنے بارے میں کافی پریشانی رہتی ہے، تو کیا وہ چکروں کے ختم ہونے کا انتظار کریں  یا لیٹے ہوئے وقت پر نماز ادا کریں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے آپ کے خاوند کو چکروں کا شکار ہونے کا امکان زیادہ ہو، یا روزے کی وجہ سے چکروں کی شدت یا مدت میں اضافے کا خدشہ ہو تو پھر انہیں جس وقت چکر آنے لگیں تو روزہ توڑنا جائز ہے، اسی طرح اگر چکر آنا شروع ہو جائیں اور روزہ توڑنے سے چکروں کی شدت یا مدت میں کمی آئے تو پھر سر چکرانے کے بعد بھی روزہ توڑنا جائز ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (183) أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ [183]یہ چند دن گنتی کے ہیں، تو جو تم میں سے ان دونوں میں بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دیگر دنوں میں گنتی پوری کرے۔ [البقرۃ: 183 - 184]

تو ایسی بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنے کی گنجائش ہے جس کی وجہ سے روزے دار کو کافی مشقت اٹھانی پڑ رہی ہو۔

علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/261) میں کہتے ہیں:
"کوئی ایسا مریض جو روزہ نہیں رکھ سکتا اور اس کی بیماری سے شفا یابی بھی ممکن ہے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم نہیں ہے ۔۔۔ یہ اس وقت ہے جب روزہ رکھنے سے واقعی سخت تکلیف ہو۔ اس کے لیے یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ روزہ رکھنے سے اس کی حالت اتنی بگڑ جائے کہ روزہ جاری نہ رکھ پائے، بلکہ ہمارے فقہائے کرام نے روزہ خوری کی شرط یہ بیان کی ہے کہ: روزہ رکھنے سے اتنی تکلیف ہو کہ جسے برداشت کرنا مشکل ہو۔" ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مریض کی متعدد حالتیں ہیں:
پہلی حالت: روزے کی وجہ سے منفی اثرات نہ ہوں، مثلاً: معمولی زکام، معمولی سر کا درد اور داڑھ درد وغیرہ تو ایسے مریض کے لیے روزہ خوری جائز نہیں ہے؛ اگرچہ بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ اس کے لیے بھی روزہ خوری جائز ہے؛ ان کے مطابق مریض کو روزہ خوری کی اجازت دینے والی سورت بقرہ کی آیت 185 عام ہے؛ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ روزہ خوری کا یہ حکم علت کی وجہ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ روزہ خوری انسان کے لیے راحت کا باعث بنے تو ایسے میں ہم مریض سے کہیں گے کہ روزہ نہ رکھے، لیکن اگر روزہ نہ رکھنے سے تکلیف پر کوئی اثر نہیں ہو گا تو پھر اس کے لیے روزہ خوری جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس پر روزہ رکھنا لازم ہے۔

دوسری حالت: روزہ رکھنے سے مشقت تو ہو لیکن اسے کوئی نقصان نہ ہو، تو اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ لیکن روزہ افطار کر بھی کر سکتا ہے۔

تیسری حالت: روزہ رکھنا مشکل بھی ہو اور روزے سے نقصان کا اندیشہ بھی ہو، مثلاً: ایک شخص گردے، یا شوگر کا مریض ہے تو ایسے مریض کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے۔" ختم شد

"الشرح الممتع" (6/341)

دوم:
جب مریض کو حالتِ جنابت میں چکروں کا دورہ پڑے تو نماز کے لیے اس پر غسل کرنا واجب ہے، نیز اس کے لیے ظہر اور عصر، اسی طرح مغرب اور عشا کو جمع تقدیم یا تاخیر کر کے ادا کرنا جائز ہے، تاہم اگر دورہ اتنا لمبا ہو جائے کہ فجر کا وقت نکلنے کا خدشہ ہو، یا عصر یا عشا کی نماز کا وقت نکلنے والا ہو تو اس کے لیے تیمم کر کے نماز ادا کرنا جائز ہو گا؛ کیونکہ یہ شخص مریض ہے اور پانی استعمال نہیں کر سکتا، اور نماز کے آخری وقت تک نماز مؤخر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ شاید دورہ ختم ہو جائے۔

سوم:
انسان کے لیے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا لازم ہے، اگر کھڑے ہونے کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کر لے، اور اگر بیٹھنے کی بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل نماز ادا کرے، جیسے کہ صحیح بخاری: (1050) میں سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "مجھے بواسیر کی شکایت تھی تو میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اگر استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل) لہذا مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ نماز کا وقت نکال دے، صرف نمازوں کو جمع کرنے کی صورت میں ایک نماز کو دوسری کے وقت میں پڑھنا جائز ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (24/14) میں کہتے ہیں کہ:
"مریض اور مستحاضہ خاتون نمازیں جمع کرے گی۔" ختم شد

اس حالت میں اگر نماز پر مکمل توجہ نہیں رہتی یا خشوع پیدا نہیں ہوتا تو اس سے کچھ نہیں ہو گا۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی انہیں شفا اور عافیت سے نوازے، اور تکلیف پر صبر کی وجہ سے اجر عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب