الحمد للہ.
اول:
اگر والدہ یہ کہے کہ یہ سونا عارضی طور پر پہننے کے لیے عاریۃ دیا تھا، جبکہ بیوی یہ کہے کہ یہ تحفہ اور ہدیہ تھا تو والدہ کو یہ سونا تبھی واپس ملے گا جب والدہ قسم اٹھا کر کہے کہ انہوں نے یہ سونا عاریۃ دیا تھا۔
جبکہ فقہی قواعد میں ایک قاعدہ ہے کہ: اگر کوئی چیز دینے والے اور اسے وصول کرنے والے کے درمیان کسی چیز پر اختلاف ہو جائے تو پھر دینے والے کی بات معتبر ہو گی۔
یہ اصول علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے "المنثور في القواعد" (1/145) میں ذکر کیا ہے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ:
"اگر خاوند اپنی بیوی کو کچھ درہم دے اور کہے کہ : میں نے یہ حق مہر کے طور پر دئیے تھے، جبکہ بیوی کہے کہ نہیں، وہ خاوند نے مجھے بطور تحفہ دئیے تھے، تو یہاں پر درہم دینے والے خاوند کی بات معتبر ہو گی۔ یہ رافعی نے اپنی کتاب "الصلح" میں فقہائے کرام سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح کتاب الصداق میں ہے کہ: اگر کسی بھی مال کو وصول کرنے کے بارے میں میاں بیوی کا اختلاف ہو جائے؛ خاوند کہے کہ میں نے بطور حق مہر دیا تھا، جبکہ بیوی کہے کہ: بطور تحفہ دیا تھا، تو پھر خاوند کی بات معتبر ہو گئی اور ساتھ میں قسم بھی اٹھائے گا۔" ختم شد
اسی طرح "حاشية ابن عابدين" (5/710) میں ہے کہ:
"ایک شخص نے زیور خرید کر اپنی بیوی کو دے دیا، بیوی زیور استعمال کرتی رہی، پھر بیوی کی وفات ہو گئی، اب خاوند اور بیوی کے ورثا میں اختلاف ہو گیا کہ یہ تحفۃً تھا یا عاریۃً؟ تو یہاں بات خاوند کی معتبر ہو گئی اور ساتھ میں اس بات پر قسم بھی دے گا کہ اس نے یہ زیور بیوی کو عاریۃً دیا تھا؛ کیونکہ خاوند اس زیور کے بطور تحفۃً ہونے کا انکاری ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ "الفتاوى الهندية" (4/399) ملاحظہ کریں۔
دوم:
آپ کو چاہیے کہ آپ والدہ کو سمجھائیں کہ تحفہ دے کر واپس لینا حرام عمل ہے؛ کیونکہ سنن ابو داود: (3539)، ترمذی: (2132) ، نسائی: (3690) اور ابن ماجہ: (2377) میں سیدنا ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی آدمی کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ کوئی عطیہ یا تحفہ دے اور پھر اسے واپس لے لے، البتہ والد اپنی اولاد کو دئیے ہوئے عطیہ کو واپس لے سکتا ہے۔ اور عطیہ یا تحفہ دے کر واپس لینے والے کی مثال کتے جیسی ہے کہ کتا کھا کر سیر ہو جاتا ہے پھر جب سیر ہو جائے تو قے کر دیتا ہے، اور پھر اسی قے کو دوبارہ کھاتا ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم