الحمد للہ.
اصل ميں طلاق اچھى چيز نہيں بلكہ ناپسند ہے اس كى دليل اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اپنے بيويوں سے ايلاء كريں ( اپنى بيويوں سے تعلق نہ ركھنے كى قسم اٹھائيں ) وہ چار ماہ تك انتظار كريں، پھراگر وہ لوٹ آئيں تو اللہ تعالى بھى بخشنے والا مہربان ہے ، اور اگر وہ طلاق كا قصد كر ليں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے البقرۃ ( 226 – 227 ).
تو اس آيت ميں اللہ تعالى نے پہلے غفور رحيم كہا ہے، اور جب طلاق كى بارى آئى تو فرمايا: وہ سننے والا جاننے والا ہے، اور اس ميں كچھ دھمكى پائى جاتى ہے، تو يہ اس كى دليل ہے كہ طلاق اللہ كے ہاں ناپسند ہے.
ليكن بعض اوقات حالات ايسے پيدا ہو سكتے ہيں جس كى وجہ سے طلاق ضرورى ہو جاتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو طلاق كے وجوب تك بات جا پہنچتى ہے، ہمارے عزيز بھائى جس طرح كى حالت آپ نے بيان كى ہے اس طرح كى حالت ميں ہو سكتا ہے طلاق ہى مناسب حل ہو، كيونكہ يہ نہيں سمجھا جا سكتا كہ ـ جيسا كہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے ـ بيوى خاوند كے ساتھ اس طرح كى بدسلوكى كرے، كيونكہ ہو سكتا ہے بعض اوقات بيوى خاوند كے ساتھ غلطى كا ارتكاب كر بيٹھے، ليكن خاوند كى ايك كے بعد دوسرى بار ناشكرى اور نافرمانى كرے يہ بہت عجيب ہے.
ليكن طلاق سے قبل اصلاح كى كوشش ضرور كريں، اور عورت پر صبر كريں، كيونكہ اگر اس ميں كچھ بداخلاقى ہے تو آپ كو اس ميں كچھ اچھى صفات بھى مليں گى، اور اخلاق حسنہ بھى ديكھيں گے جو اس كى اس بداخلاقى كو اچھائيوں اور اخلاق حسنہ كے مقابلہ ميں برداشت كر ليں.
اور اگر آپ مسئلہ كو حل كرنے كے ليے كسى رشتہ دار كو اس ميں ڈال سكتے ہيں تو اس مسكين بچى پر رحم كرتے ہوئے ايسا ضرور كريں ـ معاملہ چاہے كتنا بھى بڑھ جائے ـ يہ جدائى اور عليحدگى اور خاندان كى بربادى سے اصلاح ہى بہتر ہے.
اور اگر اس كا آخرى حل طلاق ہى ہو اور آپ طلاق كے علاوہ باقى سارے حل استعمال كر چكے ہوں تو پھر آپ پہلے استخارہ كريں اور پھر مشورہ كرنے كے بعد اللہ پر توكل كريں.
اور اس نے عدالت ميں جو مقدمہ دائر كر ركھا ہے ہو سكتا ہے وہ خاوند سے طلاق يا خلع لينے كے ليے ہو، يہ حالت پر منحصر ہےن اگر تو وہ خاوند كو طلاق كے بدلے مال ادا كرتى ہے يا مہر واپس كرتى ہے تو يہ خلع شمار ہو گا، اور اگر كچھ نہيں ديتى اور طلاق ہو جائے تو يہ طلاق ہو گى.
رہا مسئلہ پرورش كا تو اس ميں اصل ماں ہى زيادہ حقدار ہے جب تك اس ميں كوئى مانع نہ ہو، اور اگر كوئى مانع پايا جائے مثلا ماں كسى اور شخص سے شادى كر لے، يا ماں برے اخلاق كى مالكہ ہو تو اس صورت ميں جمہور علماء كے ہاں حق پرورش ماں سے منتقل ہو كر نانى كو مل جائيگا.
اور اگر نانى بھى ايسى ہى ہو تو يہ باپ كو مل جائيگا، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے تنازع و اختلاف كے وقت يہ اختيار كيا ہے كہ نانى كى بجائے باپ كو منتقل ہو گا كيونكہ يہ بچے كے زيادہ قريب ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى زاد المستقنع ميں پرورش كے مسئلہ كى شرح كرتے ہوئے اس كو راجح كہا ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر (5234 ) اور (9463 ) اور (8189 ) اور (21516 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.
واللہ اعلم .