جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

تراويح ميں قرآت كى كوئى حد متعين نہيں ہے

سوال

كيا نماز تراويح ميں قرآت كرنے كى كوئى حد متعين ہے، جس كے بغير چارہ نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز تراويح ميں قرآت كرنے كى كوئى حد متعين نہيں جو ضرورى ہو صرف اتنا ہے كہ نماز جتنى لمبى كى جائے گى اتنا ہى اچھا اور افضل ہے، ليكن اتنى لمبى نہ ہو كہ مقديوں كے ليے مشقت كا باعث ہو.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" رمضان ميں نماز تراويح وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قرآت كى حد مقرر نہيں فرمائى كہ جس سے كم يا زيادہ نہيں پڑھا جا سكتا، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كبھى لمبى قرآت فرمائے اور كبھى اس ميں كمى فرماتے تھے، بعض اوقات تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں سورۃ مزمل كے برابر قرآت كرتے جو كہ بيس آيات پر مشتمل ہے، اور بعض اوقات تقريبا پچاس آيات كے برابر قرآت فرماتے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" جس نے رات ميں نماز كے اندر سو آيات قرآت كيں اسے غافلين ميں سے نہيں لكھا جائے گا"

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے:

" جس نے رات كى نماز ميں دو سو آيات قرآت كيں اسے مخلص اور قانتين ميں لكھ ليا جاتا ہے"

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بار ايك رات ميں سبع الطوال يعنى سات لمبى سورتوں جو سورۃ البقرۃ، آل عمران، النساء، المآئدۃ، الانعام، الاعراف، اور سورۃ التوبۃ كى قرآت كى حالانكہ نبى كريم صلى اللہ وسلم مريض تھے.

اور حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ ميں ہے كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيچھے نماز پڑھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ركعت ميں سورۃ البقرۃ پڑھى اور پھر سورۃ النساء، اور پھر آل عمران كى تلاوت كى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہت آرام اور ٹھر ٹھر كر تلاوت كرتے تھے.

اور صحيح سند كے ساتھ ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جب ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ رمضان المبارك ميں لوگوں كو گيارہ ركعت پڑھائيں تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سو سو آيات تلاوت كرتے حتى كہ قيام لمبا ہونے كى بنا پر مقتدى اپنى لاٹھيوں اور چھڑيوں پر سہارا ليتے، اور تقريبا فجر كے وقت نماز سے فارغ ہوتے.

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ بھى ثابت ہے كہ انہوں نے رمضان المبارك ميں قاريوں كو بلايا اور ان ميں سے سب سے تيز تلاوت كرنے والے قارى كو حكم ديا كہ وہ تيس آيات تلاوت كرے، اور درميانى تلاوت كرنے والے كو پچيس اور بالكل كم رفتار سے تلاوت كرنے والے كو بيس آيات تلاوت كرے.

تو اس بنا پر اگر كوئى شخص خود اكيلا نماز ادا كرتا ہے تو وہ جتنى چاہے نماز لمبى كرے، اور اسى طرح اگر اس كے ساتھ نماز ادا كرنے والے بھى لمبا قيام كرنے پر موافقت كرتے ہوں تو جتنا چاہے لمبا كر لے، اور جتنا بھى قيام لمبا كرے گا اتنا ہى افضل ہے.

ليكن اسے اتنا لمبا قيام نہيں كرنا چاہيے كہ وہ سارى رات ہى قيام ميں گزار دے، ليكن نادر طور پر ايسا كر سكتا ہے، تا كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كر سكے جن كا فرمان يہ ہے:

" اور سب سے بہترين طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے"

ليكن اگر وہ امام ہو اور دوسرے لوگوں كى امامت كروا رہا ہو تو اسے نماز اتنى لمبى كرنى چاہيے جو باقى لوگوں كے ليے مشقت كا باعث نہ ہو.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جب كوئى لوگوں كى امامت كروا رہا ہو تو وہ نماز كو ہلكا كر كے ادا كرے، كيونكہ ان ميں چھوٹا بھى ہے، اور بڑا بھى، اور ان ميں كمزور بھى اور مريض بھى، اور ضرورتمند بھى ہے، اور جب وہ اكيلا قيام كرے تو جتنا چاہے لمبا كرلے" انتہى

ماخوذ از: رسالۃ قيام رمضان.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 66504 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب