الحمد للہ.
اللہ تعالی ہر چیزکوپیدا کرنے والاہے ، اورروح بھی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس حقیقت وغیرہ کا علم تو اللہ تعالی کی خصوصیت ہے جس طرح کہ حدیث میں وارد ہے :
عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسملم کے ساتھ ایک کیھتی میں تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھڑی پرسہارا لیے ہوۓ تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ یھودیوں کا وہاں سے گذر ہوا تووہ ایک دوسرے کوکہنے لگے کہ ان سے روح کے بارہ میں سوال کرو تووہ کہنے لگا کہ تمہاری کیا راۓ ہے کہ اس کےپاس چلیں تو ایک نے کہا نہیں کہیں وہ ایسی بات نہ کہہ دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ۔
وہ کہنے لگے کہ اس سے پوچھو توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارہ میں سوال کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اورجواب نہیں دیا تومجھے یہ علم ہوگيا کہ آّپ پروحی کا نزول ہورہا ہے تومیں اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگيا توجب وحی کا نزول ہوچکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اوروہ آپ سے روح کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہ دیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اورتمہیں تو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے صحیح بخاری۔
اوراللہ تعالی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب وسنت میں روح کے کئ ایک اوصاف بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
وہ قبض اورفوت ہوتی ہے اوراسے جکڑا اور کفن میں لپیٹا جاتا ہے ، وہ آتی اورجاتی ہے اوپرچڑھتی اورنیچے اترتی ہے ، اور وہ اس طرح نکل جاتی ہے جس طرح کہ آٹے سے بال نکلتا ہے ۔۔
توانسان پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ ان صفات کوجوکہ قرآن مجید اور سنت نبویہ میں وارد ہیں ثابت کرے اس کے ساتھ ساتھ کہ روح بدن کی طرح نہیں ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجیدمیں ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اوراس میں روح پھونکی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حديث میں بھی اس کا ذکرکیا ہے :
( اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایااوران میں روح پھونکی توآدم علیہ السلام نے چھینک ماری اورالحمدللہ کہا توانہوں اللہ تعالی کی اجازت سے ہی اللہ تعالی کی تعریف کی توآدم علیہ السلام کو ان کے رب نے کہا اے آدم اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے ان فرشتوں کے پاس جاؤ جوبیٹھے ہوۓ ہیں انہیں جا کر السلام علیکم کہو توانہوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا پھرآدم علیہ السلام اپنے رب کی پاس واپس آۓ تواللہ تعالی نے کہا کہ یہ تیرا سلام ہے اور ان کا بھی آپس میں یہی سلام ہے ) سنن ترمذی نے اسے حسن کہا ہے دیکھیں سنن ترمذي ( 3290 ) ۔
اللہ تعالی فرشتے کومادررحم میں پاۓ جانےوالے بچے میں روح پھونکنے کے لیے بھیجتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں اس کا ذکر ہے :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اوروہ صادق ومصدوق ہيں کہ تم میں سے ہرایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک جمع کیا جاتا ہے پھراسی طرح چالیس یوم میں خون کا لوتھڑا اورپھر اسی طرح چالیس یوم میں گوشت کا ٹکڑا پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے تووہ اس میں روح پھونکتا ہے اوراسے چارچيزوں کا حکم دیا جاتا ہے اس کے رزق اورموت اور اسے عمل اورشقی یا سعید کےبارہ میں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4781 ) ۔
اورروح نیچے پاؤں کی انگلیوں سے اوپر کی جانب قبض کی جاتی ہے توجب وہ حلق تک پہنچتی ہے تومرنے والے شخص کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے اوراس کی آنکھیں اوپرکواٹھ جاتی ہیں ۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضي اللہ عنہ کے پاس آۓ توان کی آنکھیں پھٹ چکی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بند کیا پھرفرمانے لگے : بلاشبہ جب روح قبض کی جاتی ہے توآنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1528 ) ۔
اورفرشتے روح سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( فرشتے تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح سے ملے تواسے کہنے لگے کیا تونے کوئ اچھا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے ملازموں سے کہا کرتا تھا کہ تنگ دستوں سے درگزر کرو تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے اس سے درگزر کردیا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1935 ) ۔
فرشتے روح قبض کرنے کے بعد اسے آسمان پر لے جاتے ہیں جس طرح کہ حدیث میں بھی وارد ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تواسے فرشتے مل کر بٹھاتے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے اس روح کی اچھی خوشبو ذکر کیا اور کستوری کابھی ذکر کیا ہے وہ کہتےہیں کہ آسمان والے کہتے ہیں زمین سے اچھی روح آئ ہے تجھ پر جس جسم میں توتھی اللہ تعالی اپنی رحمت کرے تووہ اسے لیکر اللہ تعالی کے پاس لے جاتے ہیں پھروہ کہتا ہے کہ اسے سدرۃ المنتھی تک لے جاؤ ۔
وہ کہتے ہیں کہ جب کافر کی روح نکلتی ہے ۔۔ اورانہوں نے اس کی گندی بدبو کا ذکر کیا اور لعنت کا بھی اوراہل آسمان کہتے ہیں کہ زمین سے خبیث روح آئ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اسے سجین کی طرف لے جاؤ ( جوکہ کفار کی روحوں کی جگہ ہے ) ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی علیہ وسلم نے اپنے ناک پررکھا ہوا رومال ہٹایا ۔ صحیح مسلم ( 5119 ) ۔
روح نکلنے کےبارہ میں تفصیل سے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کی ہے :
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں گۓ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ زمین کرید رہے تھے ، توانہوں نے اپنا سراٹھایا اورفرمانے لگے عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو یہ با ت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دویا تین بار دھرائ پھر فرمانے لگے :
جب مومن بندہ اس دنیا سے آخر ت کی طرف جارہا ہوتا ہے توآسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں ان کےپاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے حتی کہ وہ اس کے سامنے حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سر کے قریب بیٹھتا اور کہتا ہے اے اچھی جان اپنے رب کی مغفرت اوررضامندی کی طرف چلو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے ، توفرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے اورپلک جھپکتے ہی اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ جنتی کفن اور خوشبومیں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائ جانے والی سب سے اچھی قسم کی کستوری کی خوشبونکلتی ہے ، تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں تووہ جس فرشتے کے پاس سےبھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے یہ اچھی روح کس کی ہے ؟
تووہ وہ کہتے کہ یہ فلان بن فلان ہے دنیامیں اسے جس سب سےاچھے نام سے بلایا جاتا تھا حتی کہ وہ اسے آسمان دنیا تک جاکراسے کھلواتے ہیں توکھول دیا جاتا ہے تواسے ہر آسمان والے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان تک جاتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتےہیں میرے بندے کی کتاب اعلی علیین میں لکھ دواور اسے زمین کی طرف لوٹا دو بلاشبہ میں نے انہیں اسی میں پیدا کیا اوراسی میں لوٹاؤں گا اورپھراسی میں سے نکالوں گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے تواس کے پاس دوفرشتے آ کراسے بٹھاتے اوراسے کہتے ہيں کہ تیرا رب کون ہے تووہ کہتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں اس شخص کے بارہ میں تیرا کیا خیال ہے جوتم میں مبعوث کیا گيا تھا وہ جواب دے گا وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، وہ اس سے سوال کرتے ہیں تیرا علم کیا ہے وہ جواب دیتا ہے میں نےکتاب اللہ کوپڑھاتواس پرایمان لایا اورتصدیق کی توآسمان میں آواز لگائ جاتی ہے کہ میرے بندے نے سچ بولا اس کے لیے جنت کا بستر لگاؤ اورجنتی لباس پہناؤ اورجنت کی طرف دروازہ کھول دو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں سے جنت کی ہوائيں اور خوشبو آتی ہے اور حد نگاہ تک اس کی قبر وسیع ہوجائ گی ، اورفرمایا کہ اس کے پاس خوبصورت وجیہ شکل اورخوبصورت لباس اوراچھی خوشبومیں ایک شخص آکرکہتا ہے خوش ہوجاؤ یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ، تووہ اسے کہے گا توکون ہے تیرے چہرےسے ظاہر ہورہا ہے کہ توخیرلانے والا ہے ، وہ جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں ، وہ شخص کہے گا اے رب قیامت قائم کردے حتی کہ میں اپنے گھر اورمال میں چلا جاؤں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ جب کافراس دنیا سے آخرت کی طرف جارہا ہوتا ہے تواس آسمان سے اس کے پاس سیاہ چہروں والے کھردرا ٹاٹ لیے آتے اوراس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھرملک الموت آکر اس کے سرکےپاس بیٹھ جاتا اورکہتا کہ اے خبیث روح اپنے رب کے غصہ اورغضب کی طرف نکل ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تووہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے تواسے جسم سے اس طرح کھینچا جاتا ہے جس طرح کہ بھیگی ہوئ روئ سے سلاخ کھینچی جاتی ہے ، تووہ اسے پکڑکر پلک جھپکتے ہی اس کھردرے ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں اوراس سے زمین پرپاۓ جانےوالے گندے ترین مردارکی طرح بدبوآتی ہے تووہ اسے لیکر اوپرچڑھتے ہیں وہ فرشتوں میں سےجس کےپاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا کہ یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ کہتے ہیں یہ فلان بن فلان اس نام ساتھ جوزمین میں قبیح ترین نام اسے دیا جاتا تھا حتی کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے اور اسے کھلواتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :
ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائيں گے اور وہ اس وقت تک جنت میں بھی نہیں داخل ہوسکتے حتی کہ سوئ کے نکے میں اونٹ داخل ہوجاۓ
تواللہ تعالی فرمائيں گے کہ اس کی کتاب سب سے نچلی زمین میں سجین کے اندر لکھ دو تواس کی روح کواوپر سے ہی پھینک دیا جاۓ گا پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آيت پڑھی :
اورجو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے آسمان سے گرے تواسے پرندے اچک لے جائيں یا پھر اسے ہوا کسی دوردراز مقام پر پھینکھ دے
تواس کی روح جسم میں لوٹائ جاتی ہے اوردو فرشتے اس کے پاس آکربٹھاتے اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے وہ جواب میں کہتا ہے ہاۓ مجھے توکوئ علم نہیں ، وہ اسے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب دیتا ہے ہاۓ مجھے توکچھ علم نہيں ، وہ اسےکہتے ہیں اس شخص کے بارہ میں توکیا کہتا ہے جوتمہارے اندمبعوث کیا گيا ، وہ جواب کہتا ہے ہاۓ مجھے تواس کا علم نہیں ، توآسمان سے یہ آواز لگائ جاتی ہے کہ :
اس کے لیے آگ کا بسترلگادو اورآگ کی طرف دووازہ کھول دو تواس سے اس کی گرمی اوردھواں اوربدبو آتی ہے اورقبراس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں ، اوراس کے پاس ایک قبیح الشکل گندے اوربدبودار کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے تجھے تیری ناپسندیدگی کی خوشخبری ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا ،وہ اس سے سوال کرے گا توکون ہے ؟ تیرا توچہرہ ہی ایسا ہے جوشرہی شرلاتا ہے وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں تیرے برے اعمال ہوں ، تووہ کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر ۔ مسند امام احمد حدیث نمبر ( 17803 ) اوریہ حدیث صحیح ہے ۔
اورآخری زمانے میں اللہ تعالی ایک ایسی ہوابھیجے گا جوہرمومن کی روح کوقبض کرلے گی اس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتا ہے :
نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اورنزول عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اورعیسی علیہ السلام کی زندگی میں اچھی معیشت اوران کے بعد اس وقت لوگوں کی سعادت کا بھی ذکرکیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تووہ اسی حالت میں ہوں گے تواللہ تعالی ایک اچھی ہوا بھیجے گا جو انہیں ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اورمومن اورمسلمان کی روح قبض کرلےگی اورسب سے شریر ترین لوگ باقی رہ جائيں گے جوگدھوں کی طرح سرعام مجامعت کریں گے توان پر قیامت قائم ہوگی ۔ صحیح مسلم ( 5228 )۔
اورنیند( جسے موت صغری کہا جاتا ہے ) کے وقت بھی روح قبض ہوتی ہے لیکن اسے کلی طورپر قبض نہیں کیا جاتا اسی لیے سویا ہواشخص بقید حیات اورزندہ ہوتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اوراللہ تعالی ہی روحوں کوان کی موت کے وقت او رجن کی موت نہیں آئ ان کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے انہیں روک لیتا اور دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ، بلاشبہ اس میں غورکرنے والوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں الزمر ( 42 ) ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کووصیت کرتے ہوۓ فرمایا :
جب وہ سونے کے لیے لیٹے تویہ دعا پڑھے :
( بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ فَإِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ )
میرے رب تیرے ہی نام کے ساتھ اپنا پہلورکھا اورتیرے ہی ساتھ اٹھاؤں گاپس اگرتومیرجان روک لے تواس پر رحم کراوراگر تواسے چھوڑ دے تواس کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح تواپنے نیک اورصالح بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔
اورجب وہ نیند سے بیدار ہوتو یہ دعا پڑھے :
( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي فِي جَسَدِي وَرَدَّ عَلَيَّ رُوحِي وَأَذِنَ لِي بِذِكْرِهِ )
اس ذات کی حمدو تعریف ہے جس نے میرے جسم کوعافیت سے نوازا اورمیری روح کومجھ پرلوٹایا اوراپنے ذکر کی اجازت دی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوروایت کرنے کےبعد حسن قرار دیا ہے سنن ترمذی ( 3323 ) ۔
روح کے متعلقہ یہ چندآيات اوراحادیث صحیحہ تھیں جوآپ کے سامنے ذکر کی گئ ہیں امید ہے کہ سائل اس کی راہنمائ سے راہ حق اوردین اسلام پرچلےگا ۔
آپ کا سوال کرنے پرشکریہ ۔
واللہ تعالی اعلم .