الحمد للہ.
اول:
خاوند كى اجازت كے بغير بيوى كا گھر سے نكلنا حلال نہيں، بلكہ كچھ اہل علم تو اسے نشوز يعنى اس نافرمانى كے حكم ميں شامل كرتے ہيں جس كا قرآن مجيد ميں بيان ہوا ہے اور اسے خاوند كى اطاعت سے نكل جانا شمار كرتے ہيں، ليكن اگر اس سلسلہ ميں كوئى عذر ہو تو پھر نہيں، مثلا يہ كہ خاوند اپنى بيوى كو تكليف و اذيت ديتا ہو جسے دور كرنا ممكن نہ ہو.
پھر يہ بھى ہے كہ بيوى كا اپنے خاوند كو اپنے بدن سے روك دينا ايسا عمل ہے جس كى بنا پر نان و نفقہ ساقط ہو جاتا ہے، كيونكہ فقھاء كرام نے اسے نشوز شمار كيا ہے.
ديكھيں: المغنى ( 8 / 182 ).
دوم:
آپ كے بھائى كو چاہيے كہ وہ حكمت و دانائى كے ساتھ اپنى بيوى كو اپنے گھر واپس لائے اور اسے وعظ و نصيحت كرتے ہوئے اللہ كا خوف دلائے، اور اسى طرح اپنے سسرال والوں كو بھى وعظ و نصيحت كرے، اور اگر وہ خود ايسا نہيں كر سكتا تو پھر خاندان كے حل و عقد اور اہل علم افراد سے معاونت لے كہ وہ اس موضوع كو حل كرنے ميں دخل ديں.
آپ كے بھائى كو اس سلسلہ ميں جلدبازى نہيں كرنى چاہيے بلكہ وہ سوچ و بچار اور غور و فكر كے بعد ہى كوئى فيصلہ كرے، كيونكہ جلد بازى شيطان كى طرف سے ہوتى ہے اور سوچ و بچار كے بعد ٹھنڈے دل سے فيصلہ كرنا اللہ كى جانب سے.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1795 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور ہو سكتا ہے آدمى جب غصہ كى حالت ميں كوئى فيصلہ كر بيٹھے تو بعد ميں اسے اپنے فيصلہ پر اس وقت نادم ہونا پڑے جب ندامت كو كوئى فائدہ نہ ہو.
آپ كے بھائى كو صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے اور وہ كئى برس سے بيوى كے مابين جو اختلافات ہيں انہيں حل كرنے كى كوشش كرے، اور اسے چاہيے كہ وہ ماضى كو بھول كر اپنى بيوى كے ساتھ ايك نئى زندگى كا آغاز كرے.
سوم:
كوئى بھى انسان مكمل اور كامل نہيں كہ اس سے غلطى نہ ہوتى ہو، اس ليے ہم نيكيوں اور اچھائى كو قبول كريں اور غلطى اور برائى سے صرف نظر كرتے ہوئے چشم پوشى سے كام ليں، اور پورى حكمت و دانائى كے ساتھ اس كى اصلاح كرنے كى كوشش كريں اور اس ميں عقلمندى اختيار كريں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى مومن شخص كسى مومنہ عورت سے بغض نہيں ركھتا، اگر وہ اس كے كسى ايك اخلاق كو ناپسند كرتا ہے تو وہ اس كے دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا "
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى سے ناراض نہ ہو، كيونكہ اگر اس كى كوئى عادت اور اخلاق اسے برا لگتا ہے تو اس ميں ايسا اخلاق بھى پائيگا جو اسے اچھا لگےگا اور وہ اس سے راضى ہوگا، كہ ہو سكتا ہے بيوى بدزبان ہو ليكن دين والى ہو، يا پھر خوبصورت ہو يا عفت و عصمت كى مالك يا اس پر شفقت كرنے اور اس سے نرمى و رحمدلى برتنے والى ہو " اھـ
لوگ ايسے ہى ہيں ان ميں نيكياں اور برائياں دونوں پائى جاتى ہيں، ليكن عقلمند وہى شخص ہے جو نيكيوں اور برائيوں كا موزانہ كرے، ہميں چاہيے كہ ہم نيكى قبول كريں اور برائى و غلطى سے تجاوز و درگزر كرتے ہوئے اس كى اصلاح كى كوشش كريں.
چہارم:
اگر خاوند مندرجہ بالا سارے امور پر عمل كرتا ہے ليكن پھر بھى بيوى كى حالت ميں تبديلى نہيں آئتى تو پھر اسے اس مسئلہ كو حل كرنے كے ليے شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے.
اللہ سبحانہ و تعالى سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم.