الحمد للہ.
جب كوئى عورت كسى بچے كو دودھ پلائے تو يہ بچہ اس كا رضاعى بيٹا بن جاتا ہے، اور اس كى سارى اولاد كا رضاعى بھائى بن جائيگا، چاہے وہ اس سے قبل پيدا ہوں يا بعد ميں.
اس بنا پر جس عورت نے آپ كى والدہ كا دودھ پيا وہ آپ كى رضاعى بہن ہوئى اور آپ اس كى سارى اولاد كے رضاعى ماموں بن گئے، اس ليے آپ كا اس كى بيٹى سے شادى كرنا حرام ہوا كيونكہ آپ اس كے رضاعى ماموں ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت سے بھى وہى كچھ حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2645 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1447 ).
اور نسب كے اعتبار سے ماموں كے ليے حرام ہے كہ وہ اپنى بہن كى بيٹى سے شادى كرے، تو اسى طرح رضاعى ماموں كے ليے حرام ہوئى.
ليكن يہ جاننا ضرورى ہے كہ حرمت اس رضاعت سے ثابت ہوتى ہے جو پانچ معلوم رضاعت ہوں، كيونكہ حديث سے ثابت ہے كہ:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" قرآن مجيد ميں دس معلوم رضعات نازل ہوئى تھيں، پھر انہيں پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا ... "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1452 ).
آپ نے سوال ميں ذكر كيا ہے كہ اس عورت نے آپ كى والدہ كا دو بار دودھ پيا ہے، اس ليے ہمارے يہ جاننا ضرورى ہے كہ وہ رضعت كيا ہے جس كے پانچ ہونے پر حرمت ثابت ہوتى ہے.
رضعہ كى تعريف كرتے ہوئے ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بلاشك و شبہ رضعۃ رضاع كا اسم مرۃ ہے يعنى ايك بار دودھ پينے كو رضعہ كہتے ہيں: جس طرح ضربۃ و جلسۃ و اكلۃ ہے لہذا جب بھى بچہ پستان منہ ميں ڈال كر چوسے اور پھر بغير كسى سبب كے خود ہى چھوڑ دے تو يہ ايك رضاعت كہلاتى ہے.
كيونكہ شريعت ميں يہ مطلقا وارد ہے، اس ليے اسے عرف پر محمول كيا جائيگا، اور عرف يہى ہے، سانس لينے يا تھوڑى سى راحت كے ليے يا پھر كسى اور چيز كى وجہ سے رك جانا اور پھر جلد ہى دودھ دوبارہ پينا شروع كر دينا اسے ايك رضاعت سے خارج نہيں كرتا.
جس طرح كھانے والا شخص جب اس سے كھانا چھوڑ كر پھر جلد ہى دوبارہ شروع كر ديتا ہے تو دو بار كھانا نہيں كہتے بلكہ يہ ايك ہى ہے، امام شافعى كا مسلك يہى ہے...
اگرچہ وہ ايك پستان سے دوسرے پستان ميں منتقل ہو جائے تو بھى ايك ہى رضاعت ہو گى " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 575 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 2864 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس سے يہ واضح ہو گيا كہ بعض اوقات پانچ رضعات ايك ہى مجلس ميں پورى ہو جاتى ہيں.
اس ليے اگر تو اس عورت نے آپ كى والدہ كا اس طرح پانچ رضعات دودھ پيا ہے تو آپ كے ليے اس كى بيٹى سے شادى كرنا حلال نہيں، كيونكہ آپ اس كے رضاعى ماموں لگتے ہيں.
اور اگر يہ رضاعت پانچ سے كم ہے تو اس سے حرمث ثابت نہيں ہوتى لہذا آپ كے ليے اس كى بيٹى سے شادى كرنا جائز ہو گا.
اور اگر رضعات كى تعداد ميں شك پيدا ہو كہ پانچ رضاعت ہوئى ہيں يا نہيں ؟ تو شك كى بنا پر حرمت ثابت نہيں ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر رضاعت كے وجود ميں يا پھر رضاعت كى تعداد ميں شك پيدا ہو جائے كہ آيا اس نے دودھ پيا ہے يا نہيں يا رضاعت كى تعداد مكمل كى ہے يا نہيں ؟
تو اس سے حرمت ثابت نہيں ہو گى؛ كيونكہ اصل عدم رضاعت ہے، اس ليے يقين كو شك سے زائل نہيں كيا جا سكتا " اھـ
مزيد آپ سوال نمبر ( 13357 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .