جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

مسلمان شخص سے تعلق رکھنے والی اورکافرو شرابی خاوند کی بیوی اسلام قبول کرنا چاہتی ہے

4775

تاریخ اشاعت : 24-07-2003

مشاہدات : 8532

سوال

میں نے کچھ ماہ قبل اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا تھا اورمیرے پاس قرآن مجید بھی ہے جس کے مطالعہ میں مشغول ہوں اورمیں جس کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ میں قرآن مجید کا انجیل سے موازنہ کررہی ہوں ۔
میں توتقریبا اسلام قبول کرنے کےلیے تیار ہوں لیکن مجھے دو بڑی مشکلیں درپیش ہيں :
پہلی :
میں نے ایک نصرانی شخص سے شادی کررکھی ہے جوکہ بہت زيادہ نشہ کرتا ہے اوراس وقت کچھ بھی کام نہیں کرتا ، اورجب وہ نشہ کی حالت میں ہوتا ہے تومیں اسے بالکل پسند نہیں کرتی اورنہ ہی میں شراب نوشی کرتی ہوں تقریبا دوبرس سے میں نے بالکل شراب نوشی ترک کر رکھی ہے میرا والد بھی شراب نوش تھا اوراب افسوس ہےکہ خاوند بھی شراب نوشی کرتا ہے ۔
خاوند سے میری محبت اس کے اخلاق اور تصرفات کی بنا پرہے اورمیں اب بھی جب وہ نشہ کی حالت میں نہیں ہوتا تو اس سے محبت کرتی ہوں ، اس لیے کہ جب وہ ہوش وحواس میں ہوتا ہے تو ایک افضل اورسخی انسان بن کررہتا اورہروہ کام کرتا ہے جواس کے دوست واحباب اورخاندان والے اسے کہیں ۔
ہمارے دوبچے بھی ہیں لیکن وہ بھی اس کی شراب نوشی کی وجہ سے تکلیف اورپریشانی میں ہیں ، اب اگرمیں اسے چھوڑ دوں تووہ پریشانی اورمشکل میں پھنس جاۓ گا اوراکیلا کچھ بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ اسے اس حالت میں اپنے آپ پربہت ہی کم اعتماد ہے مجھے کچھ سمجھ نہيں آتی کہ میں کیا کروں ؟
دوسری مشکل :
میرا ایک مسلمان دوست ہے جو کہ مجھ سے بہت ہی زيادہ چھوٹا ہے ہمارا ایک دوسرے سے تعارف تقریبا دو برس سے ہوا ہے اوراب میں اس سے محبت بھی کرنے لگی ہوں مشکل یہ ہے کہ وہ شادی شدہ ہے اوراس کے دو بچے بھی ہیں اورپھر وہ مجھ سے بہت زیادہ چھوٹا بھی ہے اورمیرے خاوند کا دوست اورمیں اس کی بیوی کی سہیلی ہوں ۔
میں نے ابھی تک اسے یہ نہیں بتایا کہ میں تیرے بارہ میں کیا محسوس کرتی ہوں لیکن جوکچھ ہوتا ہے اس کی بنا پرمیں خوابوں کی دنیا میں جا پڑتی ہوں ، مجھے یہ علم ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں اور میں ان عورتوں میں سے بھی نہیں جوکسی اورمرد کے لیے اپنے خاوند کوچھوڑ دیں ۔
لیکن میں تقریبا چھ برس سے زوجیت کی سعادت سے محروم ہوں اورابھی تک مجھے موت بھی نہيں آئ ، میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں لیکن اس بات سے ڈرتی ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میرے دوست کے میرے بارہ ميں خیالات بد نہ جائيں ۔
اب تو ہم ایک دوسرے کے پاس جاتے اور ہر قسم کی تجارت سے لیکر دینی معاملات تک بات چیت کرتے ہیں ، میں اپنے اس دوست سے اپنے سے علیحدہ نہیں ہونے دینا چاہتی ۔ میرا یہ دوست دین پر بہت زيادہ کاربند ہے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


آپ کے لیے دین اسلام پراطمنان کا حاصل ہونا بہت بڑی چیز ہے جو کہ مطالعہ اور قرآن مجید اورانجیل کے موازنہ کے بعد حاصل ہوا ہے اب آپ یہ نہ خیال کریں کہ اس کے بعد آپ اورکسی اطمنان وغیرہ کی محتاج ہیں ۔

اورجن مشکلات کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کا تعلق تو آنے والے قدم اٹھانے سے ہے جوکہ حقیقی طورپردین اسلام میں داخل ہوکراس کے احکام پرعمل کرتے ہوۓ اسلامی زندگی پرعمل پیرا ہونا ہے ، ہمارے خیال میں اس اقدام میں حقیقی طورپر کوئ بھی مشکل حائل نہيں ۔

اب ہم آپ کی ان دونوں مشکلات کا علیحدہ علیحدہ مناقشہ کرتے ہیں :

پہلی مشکل :

اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا اپنے نشئ خاوندکے بارہ میں کیا موقف ہوگا ؟

اس سلسلہ میں شرعی اوراسلامی حکم یہ ہے کہ آپ کے قبول اسلام کے فوری بعد آپ کی عدت شروع ہوجاۓ گی جوکہ مدت انتظار شمارہوتی ہے ۔

امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ :

ہمارے ہاں اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب عورت اسلام قبول کرلے اور اس کا خاوند کافر ہو اورپھر وہ بھی مسلمان ہوجاۓ تو وہ عدت تک اپنی بیوی کا زيادہ حق دار ہے ، اوراگر عدت گزر جاۓ توپھر اس پر خاوند کا کوئ حق نہیں ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

اگرخاوند اوربیوی میں سے کوئ ایک بھی دخول سے پہلے اسلام قبول کرلے توان کے درمیان تفریق کردی جاۓ گی ، اوراگر دخول کے بعد اسلام قبول کرے تو پھر تین طہر( یعنی تین حیض ) تک انتظار کیا جاۓ گا ا ھـ

یہ اس وقت ہوگا جب عورت کوحیض آتا ہواوراگر اسے حیض آتا ہی نہيں تواس وقت تین مہینے شمار ہوں گے تواگران تین ماہ میں دوسرا بھی اسلام قبول کرلیتا ہے تووہ اپنے نکاح پرباقی رہيں گے ۔ دیکھیں کتاب : تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق جلد دوم باب نکاح الکافر ۔

یہ اس لیے کہ کسی بھی مسلمان عورت کے لیے جائزنہيں کہ وہ کا فرکی بیوی بن کر رہے ، اسلام بلندہونے کے لیے آيا ہے اس پرکوئ اورغالب نہيں آسکتا توآپ خود اسلام قبول کريں اوراپنے خاوند پربھی اسلام پیش کریں اگروہ بھی مسلمان ہوجاتا ہے توالحمدللہ ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا اسلام قبول کرنا شراب نوشی کے ترک کرنے کا سبب بنے ، اوراگر وہ اسلام قبول نہيں کرتا اورعدت ختم ہوجاتی ہے توپھر آپ اس سے علیحدہ ہو جائيں اوراسے چھوڑ دیں ، اورپھرخاص کر اس کی حالت بھی ناپسندیدہ سی ہے اورآپ اورآپ کی اولاد کے لیےاس کا نشہ و شراب نوشی بہت زیادہ تکلیف دہ ہے ۔

اورپھراس کے ساتھ آپ کی زندگی بھی اجیرن بن چکی ہے جس کی آپ استطاعت نہيں رکھتیں توآپ کو اس پرافسوس نہيں ہونا چاہیے ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس سے بہتر آپ کوعطا کردے ، اورآپ کہ یہ کہنا کہ وہ اپنے معاملات کوچلا نہيں سکتا ، تویہ ایک ایسی چيزہے جو اس کے اپنے ہاتھ کی کمائ ہے اوراس نے خود ہی اپنے آپ پریہ زيادتی کی ہے ، اگر جدائ اورتفریق ہوجاتی ہے تو وہ مشکلات سے دوچار ہوکر واپس لوٹے گا اوراپنے آپ کوسنبھالے گا اورمتاثر ہوکر اسلام قبول کرلے گا تا کہ اپنی بیوی بچوں کے پاس وا پس آسکے ۔

دوسری مشکل :

یہ توحقیقی طورپر بہت ہی خطرناک ہے اس لیے کہ یہ مرد اوراجنبی عورت کے مابین غیرشرعی تعلقات پر مشتمل ہے جس میں وہ جوچاہيں با تیں کرتے ہیں جن میں کوئ بھی ظابطہ سامنے نہيں رکھا جاتا تواس غلط کام کی بنا پرایک اور غلط کام پیدا ہوا ہے جوکہ محبت سے شکل اختیار کرچکا ہے ۔

اوریہ تعلق اورمحبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب جدائ کا خدشہ و خطرہ پیداہوا ہے پھراس کے ساتھ تعلق اوراسلام میں تفاضل بھی پیدا کرلیا گيا ہے ، تویہاں پرایسے تعلقات کا رہنا بہت سے خطرات اورنقصانات کا پیشہ خیمہ ہوسکتا ہے جسے ترک کرنا ضروری ہے ۔

اسلام میں داخل ہونا ایک ضروری اورواجب ہے اسی پردنیا میں سعادت اورآخرت میں جہنم کی آگ سے نجات ہے ، اس پرمستزاد یہ کہ ہمیں اس بات پرتعجب ہے کہ ( آپ کے کہنے کے مطابق ) وہ شخص دین اسلام پرکس طرح بہت زيادہ کاربند ہے ، اورایک عورت کے ساتھ غیر اسلامی اورغیر شرعی تعلقات بھی رکھے ہوۓ ہے اورآپ کہتی ہیں کہ وہ آپ کا دوست ہے ۔

تواس وقت آپ پرواجب ہے کہ آپ جلداز جلد اسلام قبول کرلیں اوراس شخص کوکسی مناسب طریقے سے نصیحت کریں ( مثلا ای میل کے ذریعہ کوئ واضح اورواشگاف الفاظ میں اسے نصیحت کی جاۓ ) اورآپ یہ پختہ یقین کرلیں کہ جب آپ اسلام قبول کرلیں گی تواللہ تعالی آپ کے لیے سب مشکلات آسان فرمادے گا اورآپ کوروزی بھی وہاں سے دے گا جہاں سے آپ سوچ بھی نہیں سکتیں اس لیے آپ اپنے رب و الہ کوراضي کریں وہ آپ سے راضي ہوگا اورسب لوگ بھی آپ سے راضي ہوجائيں گے ۔

اللہ تعالی ہم سب کواپنے محبوب کام کرنے کی توفیق دے اوران کاموں کی راہنمائ کرے جس میں اس کی رضا ہو ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد