اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

جو چیزیں جنت میں حلال ہیں وہ دنیا میں کیوں حرام کی گئی ہیں

4994

تاریخ اشاعت : 09-05-2005

مشاہدات : 26885

سوال

میں مسلمان ہوں اور سویڈن میں رہائش رکھتی ہوں میرے پاس ایک عیسائی کا سوال ہے اس کے متعلق میں نے بہت پوچھا اور کتابوں میں اس کا جواب بھی تلاش کیا ہے لیکن مجھے اس کا کوئی حل نہیں ملا وہ سوال حوروں کے متعلق تھا۔
میں نے سنا ہے کہ مرد کو جنت میں ایک سے زیادہ عورتیں ملیں گیں مجھے یہ علم نہیں آیا یہ معلومات صحیح ہیں یا کہ نہیں لیکن اگر آپ مجھے اس موضوع کے متعلق کچھ معلومات دے سکیں تو میں آپ کی شکر گزار ہوں گی ۔
اور اہم سوال یہ ہے کہ:
اسلام ایسی چیزوں کی جنت میں بشارت کیوں دیتا ہے اور اس چیز پر کیوں ابھارتا ہے جو کہ دنیا میں حرام ہیں ؟ مثلا عورت اور مرد کے شادی کے بغیر تعلقات جو کہ حرام ہیں تو اگر مسلمان ان سے بچے تو اسے جنت میں اس کے بدلے میں حوریں ملیں گیں تو کیا یہ عجیب چیز نہیں ؟
افسوس سے کہتی ہوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ معلومات تو ہیں لیکن پتہ نہیں یہ سوال کہاں سے آٹپکا لیکن مجھے اس کا یقین ہے کہ اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہو گا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس موضوع میں میرا تعاون فرمائیں گے ۔ آپ کا شکریہ

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی صفات اور جنتی لوگوں کی صفات کا کئ جگہ پر قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

فرمان باری تعالی ہے :

(اس میں بہتا ہوا چشمہ ہو گا اور اس میں اونچے اونچے تخت ہوں گے اور آبخورے رکھے ہوئےہوں گے اور ایک قطار میں لگے ہوئےتکیۓ ہوں گے اور مخملی مسندیں پھیلی ہوں گی ) الغاشیہ /12- 16

اور فرمان باری تعالی ہے :

( اور اس شخص کے لۓ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ (دونوں جنتیں ) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ تو ان دونون جنتوں میں دو بہتے چشمے ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میووں کی دو قسمیں ہوں گی ) الرحمن / 46 – 52

جنت کی صفات میں بہت سی آیات ہیں اور جنت کی عورتوں کی صفات میں کئ ایک آیات آئی ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

( ان جنتوں میں نیچی (شرمیلی) نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ گویا وہ حوریں یاقوت اور مونگے مرجان ہیں ) الرحمان / 56- 58

اور فرمان ربانی ہے :

( گوری رنگت والی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ) الرحمان / 72

اور ارشاد باری تعالی ہے :

( اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئےموتیوں کی طرح ہیں یہ اس کا صلہ ہے جو کہ وہ عمل کرتے رہے ہیں ) الواقعۃ /22/24

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی عورتوں کی صفات کے متعلق بہت سی صحیح احادیث ثابت ہیں کہ وہ قیامت کے دن متقی لوگوں کے لۓ تیار کی گئي ہیں ان میں بعض ذکر کی جاتی ہیں :

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جنت میں سب سے پہلا گروہ اسی شکل میں داخل ہو گا جس طرح کہ چودھویں رات کا چاند ہو پھر ان کے بعد اس ستارے کی مانند جو کہ آسمان میں سب سے زیادہ چمکدار اور روشن زیادہ ہے وہ نہ تو پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ اور نہ ہی تھوکیں اور نہ ہی انہیں ناک آئے گی ان کی کنکھیاں سونے اور پسینے کی خوشبو مسک کستوری کی اور ان کی انگیٹھیوں میں اگر کی لکڑی ( ایک خوشبو دار لکڑی) جلتی ہو گی اور ان کی بیویاں حور العین ہوں گیں ان کی پیدائش ایک آدمی کی پیدائش ان کے باپ آدم کی صورت پر آسمان میں ساٹھ ساٹھ ہاتھ ہو گی ) صحیح الجامع حدیث نمبر 2015

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( موتی کا خیمہ جس کی آسمان میں لمبائی ساٹھ میل ہو گی اس کے ہر کونے میں مومن کے لۓ اس کی بیوی ہو گی جنہیں دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے ) صحیح الجامع حدیث نمبر 3357

تو ان احادیث میں جنت کی ان عورتوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جو کہ مومن کے لۓ تیار کی گئیں ہیں اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کا نام حور رکھا ہے اور حور حوراء کی جمع ہے ۔

احکام ( 17 /122) میں قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ : وہ بہت زیادہ سفید جس کی آنکھیں زیادہ سیاہ ہوں انہیں حور کہا جاتا ہے ۔

تو ہمار اس پر ایمان مطلق ہے جس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں اور یہ ہمارے مضبوط عقیدہ میں سے ہے اس کی مزید تفصیل کے لۓ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں باب صفۃ الجنۃ اور صحیح مسلم ابواب صفۃ الجنۃ اور اسی طرح ابو نعیم اصفہانی کی کتاب صفۃ الجنۃ جو کہ جنتی عورتوں اور ان کے حسن کے متعلق ہے کا مطالعہ کریں ۔

اور رہا یہ سوال کہ اسلام ان اشیاء کی خوشخبری دیتا اور اس پر ابھارتا ہے جو کہ جنت میں ہیں اور دنیا میں وہ چیزیں حرام ہیں مثلا عورتوں سے شادی کے علاوہ تعلقات رکھنے ۔

تو جواب سے قبل ہم ایک خطرناک معاملے پر تنبیہ کرنا بہتر سمجھتے ہیں وہ یہ کہ بیشک اللہ تعالی اس دنیا میں دنیا والوں پر جو چاہے حرام کرے وہ تو ان اشیاء کا خالق اور مالک ہے تو کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حکم پر اپنی بیمار رآئے اور الٹ فہم کے ساتھ اعتراض کرے تو اللہ تعالی ہی کے لۓ پہلے بھی بعد میں بھی حکم ہے اللہ تعالی کے حکم اور فیصلے پر کوئی گرفت نہیں کر سکتا ۔

اور رہا یہ مسئلہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ایسی چیزیں جنہیں دنیا میں حرام قرار دی ہے اور پھر اس کے ترک کرنے والے کو آخرت میں اس کا بدلہ دے گا ( مثلا شراب، زنا اور مردوں پر ریشم پہننا وغیرہ ) تو یہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جو اطاعت کرے اور دنیا میں اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرے اسے ثواب دے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے )

اور حرمت کی علت کیا ہے تو اس کے متعلق ذیل میں چند نقاط دۓ جاتے ہیں :

اول یہ ضروری نہیں کہ ہم حرمت کی ساری علتیں جان سکیں اور ہمیں ان کا علم ہو تو کئ ایک ایسی علتیں ہیں جن کا ہمیں علم تک نہیں ہوتا ۔

تو نصوص میں اصل یہی ہے کہ انہیں تسلیم کیا جائے اگرچہ ہمیں علت کا علم نہ بھی ہو کیونکہ تسلیم کرنا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے اس لۓ اسلام اللہ تعالی کی مکمل اطاعت پر مبنی ہے ۔

دوم : بعض اوقات ہم پر حرمت کی علت ظاہر ہو جاتی ہے مثلا وہ فساد پیدا کرنے والی اشیاء جو کہ زنا سے مرتب ہوتی ہیں جیسا کہ نسب نامے میں خلط ملط ہونا اور موذی اور مہلک امراض کا پیدا ہونا وغیرہ تو جب شریعت نے غیر شرعی تعلقات کو منع قرار دیا تو اس سے مراد یہی تھی کہ نسب ناموں میں حفاظت ہو سکے جس کا کفار اور اہتمام نہیں کرتے تو وہ گدھوں کی طرح جفتی کرتے ہیں تو دوست اپنی سہیلی اور رشتہ دار اپنی رشتہ دار کے ساتھ زنا کرتا ہے اور اسی طرح گویا کہ وہ جنگلی جانور ہوں بلکہ بعض جانور بھی اس طرح کا کام نہیں کرتے اور یہ لوگ اسے برا نہیں جانتے اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتے ہیں تو معاشرہ اس سبب سے انحلال پزیر ہو چکا اور رشتہ داریاں اور تعلقات کٹ چکے ہیں اور معاشرہ جنسی اور مہلک اور موذی بیماریوں سے بھرا پڑا ہے جو کہ اس شخص پر اللہ تعالی کے غضب کی دلالت کرتا ہے جو اللہ کی حرمت کو پامال اور اس کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کر لیتا ہے ۔

اور یہ سب کچھ جنت میں بندے اور حور کے تعلق کے خلاف ہے - اور یہی ہے جس کا سوال آپ نے کیا ہے – یہ تو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فاحشہ عورت دنیا میں اپنی عزت کو نیلام کرتی پھرتی اور وہ بے دین اور بے حیاء ہوتی ہے اور کسی ایک شخص کے ساتھ صحیح نکاح کی بنا پر مستقل شرعی تعلقات نہیں رکھتی تو مرد جس کے ساتھ چاہے تعلقات قائم کرے اور عورت جس کے ساتھ چاہے پغیر کسی دینی اور اخلاقی لحاظ سے تعلقات بناتی پھرے۔

لیکن جنت میں حوریں تو اپنے ان خاوندوں کے لۓ چھپائی ہوئی ہوں گی جن کو دنیا میں حرام سے بچنے اور صبر کرنے کی بنا پر یہ بدلہ میں ملیں گیں ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

(گوری رنگت والی )حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں >

اور ان کے متعلق فرمایا :

( جنہیں ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ تک نہیں لگایا )

تو یہ حقیقت میں اس کی بیوی ہو گی ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

( اور ہم نے ان کی شادی حور عین سے کر دی )

وہ اس پر چھپائی ہوئی ہوں گی جس میں اس کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں ہو گا ۔

سوم : بیشک اللہ عزوجل نے آدمی کے لۓ دنیا کے اندر قانون بنایا ہے کہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں جمع نہیں کر سکتا ۔

تو وہ ہی جنتیوں کو بطور انعام جتنی چاہے حوریں عطا کر دے تو دنیا میں حرام ہونا اور آخرت میں نہ اس میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ان دونوں کے احکام اللہ تعالی کی مشیت کے اعتبار سے مختلف ہیں اور اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ آخرت دنیا سے افضل اور باقی رہنے والی ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( لوگوں کے لۓ مرغوب چیزوں کی محبت مزین کر دی گئي ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کۓ ہوئےخزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپآئے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ۔ آپ کہہ دیجۓ کیا میں تمہیں اس سے بھی بہت ہی بہتر چیز بتاؤ ؟ جن لوگوں نے تقوی اختیا کیا ان کے لۓ ان کے رب کے پاس ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالی کی رضا مندی ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ اس کی نگاہ میں ہیں ) آل عمران / 14 – 15

چہارم – ہو سکتا ہے کہ یہ حرمت اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش کے لۓ ہو آیا کہ وہ ان احکام پر عمل کرتے ہیں کہ یا نہیں جو انہیں دیۓ جاتے ہیں اور جس سے انہیں روکا جاتا ہے اس سے وہ رکتے ہیں کہ نہیں ۔

اور پھر بات یہ ہے کہ ایسی چیز سے آزمائش نہیں ہوتی جس کی طرف انسان کی میلان ہی نہ ہو اور نہ وہ اسے پسند کرتا ہو آزمائش تو اس کے ساتھ ہوتی ہے جس کی طرف دل کا میلان ہو اور اپنی طرف کھینچے اور اسی آزمائش میں سے ایک چیز مال بھی ہے ۔

تو کیا انسان اسے حلال طریقے سے حاصل کرتا اور اسے حلال میں خرچ کرتا اور اس میں سے اللہ تعالی کا حق ادا کرتا ہے کہ نہیں ۔

اور عورتوں کے ساتھ آزمائش اس لۓ ہے کہ آیا وہ اس پر اقتفاد کرتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حلال کی ہیں اور ان سے اپنی نظریں نیچی رکھتا اور ان سے نفع اٹھانے سے بچتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حرام کی ہیں یا کہ نہیں ۔

اور اللہ تعالی کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ایسی کسی چیز کو حرام نہیں کیا جس کی طرف میلان نفس نہ لیکن اس کے بدلے میں اسی جنس اور قسم سے کئ چیزیں حلال کی ہیں ۔

پنجم- یہ کہ دنیاوی احکام آخرت کے احکام کی طرح نہیں ہیں ۔

تو دنیا کی شراب عقل کو ماؤف کر دیتی ہے آخرت کی شراب اس کے خلاف کہ اس سے نہ تو عقل میں فتور آتا اور نہ ہی سر چکراتا اور نہ ہی پیٹ میں مروڑ پیدا ہوں گے ۔

اور وہ جو اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ قیامت کے دن اس اطاعت کے بدلے میں عورتیں تیار کی ہیں جو وہ کرتے رہے تو وہ زنا کی طرح نہیں کہ ان سے ہتک ہو اور نسب ناموں میں ملاوٹ پیدا ہو جائے اور امراض پھیل جائیں اور اس کے بعد ندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔

تو جنت کی عورتیں پاک صاف ہوں گی اور دنیا کی عورتوں کی طرح نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ ہی بوڑھی ہوں گی ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( ہم نے ان ( کی بیویوں کو ) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم انہیں کنواریاں رکھا ہے محبت والیاں اور ہم عمر ہیں )

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور خیر نصیحت کرے اور ہمیں اپنے احکام کی اطاعت کر نے کی توفیق اور اس پر ثواب کا یقین کرنے اور اس پر اجر حاصل ہونے اور اپنے عذاب سے امن وامان میں رکھے ۔ آمین

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد