الحمد للہ.
عمومى دلائل كى بنا منفرد شخص كے ليے اذان اور اقامت كہنا مستحب ہے.
شيخ منصور بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
( اور يہ دونوں مسنون ہيں ) يعنى اذان اور اقامت ( منفرد شخص كے ليے ) عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ كى مرفوع حديث كى بنا پر:
" تيرا رب اس چرواہے پر تعجب كرتا ہے جو پہاڑ كى چوٹى نماز كے ليے اذان كہہ كر نماز ادا كرتا ہے، چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
ميرے اس بندے كو ديكھو يہ اذان كہہ كر نماز ادا كرتا اور مجھ سے ڈرتا ہے، ميں تمہيں گواہ بناتا ہوں كہ ميں نے اسے بخش ديا اوراسے جنت ميں داخل كر ديا "
اسے امام نسائى نے روايت كيا ہے.
( اور ) يہ دونوں ( سفر ميں بھى ) مسنون ہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مالك بن حويرث اور اس كے چچازاد كو فرمايا تھا:
" جب تم دونوں سفر ميں ہو تو تم اذان كہہ كر اقامت كہو اور تم ميں سے بڑا جماعت كروائے" متفق عليہ.
ديكھيں: مطالب اولى النھى باب الاذان جلد نمبر ( 1 ).
اور اس كے ليے اذان اور اقامت ترك كرنا مكروہ ہے، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر منفرد شخص نے اذان اور اقامت ترك كر دى، يا جماعت ميں تو اس كے ليے ايسا كرنا مكروہ ہے، ليكن اس نے جو نماز بغير اذان اور اقامت كے ادا كى وہ دوبارہ ادا نہيں ہو گى.