جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

کیا ہم مریض کو بچائیں یا کہ اسے قضاء اور تقدیر کے لئے چھوڑ دیں

6011

تاریخ اشاعت : 28-04-2004

مشاہدات : 7442

سوال

اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھتا ہے حتی کہ اس کا بھی جو ابھی تک وقوع پذیز نہیں ہوئی۔ تقدیر اور قضاء کے متعلق اسلام کی کیا رائے ہے؟
یا کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی رائے اور خواہش سے نصیب اور قسمت کا فیصلہ کرے یا یہ کہ یہ لکھی جا چکی ہے۔ مثلا اگر ایک شخص مررہا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں اور اس کی مشیت سے ہے اور بعض اسے بچانے اور اس کا علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ لکھی جاچکی ہے یا کہ آدمی کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

ہر چیز لکھی ہوئی اور مقدر کی جاچکی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی"

اور فرمان ربانی ہے۔

"جو کچھ انہوں نے (اعمال) کۓ ہیں سب اعمال نامہ میں لکھے ہوئے ہیں، (اسی طرح) ہر چھوٹی بڑی بات بھی لکھی ہوئی ہے"

اور صحیح حدیث میں فرمان نبوی ہے۔

(اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے کہا کہ لکھ تو وہ کہنا لگا اے رب کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ لکھو)

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ۔

(اللہ تعالی نے مخلوقات کی تقدیر کا اندازہ آسمان وزمین بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی کرلیا تھا)

اور یہ تقدیر ہم سے غائب ہے جسے ہم نہیں جانتے تو یہ جائز نہیں کہ اس پر بھروسہ کرکے عمل کرنا اور اسباب کو اپنانا چھوڑ دیا جائے تو دونوں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(اللہ کے بندو علاج کرایا کرو اور حرام دوائی استعمال نہ کرو بیشک اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی دواء اور شفاء بھی نازل فرمائی ہے )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد مبارک ہے:

(عمل کرو جو بھی پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے آسانی ہے)

تو ہمیں لکھی گئی چیز کا علم تو اس وقت ہوتا بے جب اس کا وقوع ہوتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمارے لئے ارادہ وقدرت اور اختیار بنایا ہے ہم اللہ تعالی کی قدرت اور مشیت سے باہر نہیں نکل سکتے۔

اور خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو موت سے بچانا اور اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر جس کا علم ہمیں واقع ہونے کے بعد ہوتا ہے اس کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم۔

اور اللہ تعالی کے پاس ہی زیادہ علم ہے۔ .

ماخذ: کتبہ: د سلیمان الغصن۔