اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

اگر والد فجر كى نماز مسجد ميں ادا كرنے سے منع كرتا ہو تو كيا بيٹا اس كى اطاعت كرے ؟

60259

تاریخ اشاعت : 31-01-2007

مشاہدات : 7003

سوال

ميرى عمر سولہ برس ہے اور مسجد ہمارے گھر كے بہت قريب ہے، ليكن والد صاحب مجھے فجر كى نماز كے ليے مسجد نہيں جانے ديتے، اور باقى نمازيں مسجد ميں ادا كرنے ديتے ہيں، كہ مجھے خدشہ ہے آپ كو كوئى حادثہ نہ پيش آ جائے، كيونكہ ہمارے اور گھر كے مابين ايك چوراہا آتا ہے، يعنى دو سڑكيں ملتيں ہيں، حالانكہ ميں نے والد صاحب كو آيات اور احاديث پيش كر مطمئن كرنے كى كوشش كى ہے، ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، تو كيا ميں ان كے علم كے بغير مسجد ميں نماز كے ليے چلا جاؤں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارے سائل بھائى ابتدا ميں ہم نماز پنجگانہ مسجد ميں ادا كرنے ميں آپ كى اس ہمت كى داد ديتے ہيں، اور اللہ تعالى سے آپ كے ليے دين پر استقامت كى دعا كرتے ہيں، اور دعا ہے كہ آپ كے والد كى جانب سے اس طرح كے تصرفات آپ كى استقامت ميں خلل پيدا نہ كريں، اور خير و ہدايت كے كاموں سے پيچھے نہ ہٹائيں.

آپ كے سوال كا جواب دينے سے قبل ايك بہت ہى اہم اور ضرورى چيز كا ذكر كرنا ضرورى سمجھتے ہيں، اور وہ درج ذيل ہے:

والدين كى اطاعت و فرمانبردارى اور ان كے ساتھ حسن سلوك فرض ہے اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں بہت سے مقامات پر اس كى وصيت كرتے ہوئے فرمايا:

اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كرو، اور اس كے ساتھ كسى كو بھى شريك مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ النساء (36 ).

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

اور آپ كا رب صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا، اور والدين كے ساتھ احسان كرنا، اگر تيرى موجودگى ميں ان ميں سے ايك يا دونوں بڑھاپے كو پہنچ جائيں تو ان كے آگے اف تك نہ كہنا نہ انہيں ڈانٹ ڈپٹ كرنا، بلكہ ان كے ساتھ ادب و احترام سے بات چيت كرنا، اور عاجزى و محبت كے ساتھ ان كے سامنے تواضع كا بازو پست ركھنے ركھنا، اور دعا كرتے رہنا كہ اے ميرے پروردگار! ان پر ويسا ہى رحم كر جيسا انہوں نے ميرے پچپن ميں ميرى پرورش كى الاسراء ( 23 - 24 ).

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ آپ پر والدين كى اطاعت لازم ہے، ليكن اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں آپ ان كى اطاعت نہيں كر سكتے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى كى معصيت ميں اطاعت نہيں، بلكہ اطاعت تو نيكى اور معروف ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6830 ) صحيح مسلم حديث نمبر (1840 )

اور رہا مسئلہ نماز باجماعت كا مسئلہ تو نماز باجماعت ادا كرنا فرض ہے اور والد كے ليے مكلف بيٹے كو اس سے منع كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں، بلكہ والدين كو چاہيے كہ وہ اپنى اولاد كو اس كى ترغيب ديں، اور اس پر ابھاريں، اور اگر والد بيٹے كى جانب سے اس فرض كى ادائيگى ميں تقصير اور كوتاہى محسوس كرے تو وہ اسے اس مسئوليت كى ياد دہانى كروائے جو اس پر ڈالى گئى ہے، اس ذمہ دارى كے متعلق حساب و كتاب كے دن اللہ تعالى كو جواب دينا ہو گا، اس ليے وہ اپنى رعايا اور ماتحت افراد كو نيكى كا حكم اور برائى سے منع كرے، اور ان پر رب كى جانب سے جو واجبات ہيں انہيں ياد دلائے، اور اس ميں سستى و كاہلى كرنے كے خطرناك انجام كو ان كے سامنے ركھے.

اور اگر والد اپنى اولاد كے حق ميں كسى قسم كى كوتاہى كرتے ہوئے انہيں نيكى كا حكم نہيں ديتا، اور برائى سے منع نہيں كرتا، اور نہ ہى خير كے كاموں كى ترغيب دلاتا، اور شر و برائى كے كاموں سے ڈراتا نہيں تو يہ والد اپنى اولاد كے حرام كاموں كے ارتكاب، اور واجبات ميں كوتاہى كا ذمہ وار ہے.

اور اگر معاملہ يہاں تك پہنچ جائے كہ والد اپنى اولاد كو اللہ تعالى كے فرض كردہ واجبات سے منع كرتا ہے، تو اس وقت اللہ تعالى كى معصيت ميں والد كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں ہو گى، يا اس كے كہنے پر اللہ تعالى كا فرض كردہ كام ترك نہيں كيا جائيگا.

اگر والد بيٹے كو سب يا بعض نمازيں باجماعت ادا كرنےسے منع كرے تو يہ معصيت و نافرمانى كا حكم ہے، اس وقت اس كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں كى جائيگى، ليكن اس كے باوجود والد كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كے ساتھ پيش آيا جائيگا.

آپ كا يہ سوال كہ آيا آپ چورى چھپے نماز فجر كے ليے جا سكتے ہيں؟

اس كا جواب يہ ہے كہ: ايسا كرنا آپ كے ليے اچھا اور بہتر ہو گا، ليكن آپ كے والد كے ليے اس اعتبار سے برا ہو گا كہ اسے معلوم ہى نہيں، جب تك آپ كے والد آپ كو نمازباجماعت سے منع كرتے ہيں وہ معصيت كے مرتكب ہو رہے ہيں، حتى كہ اگر آپ اس كے علم كے بغير بھى نماز كے ليے جائيں تو وہ گناہ سے نہيں بچيں گے، كيونكہ وہ تو آپ كو برائى كا حكم دے رہے، اور نيكى سے منع كر رہے ہيں.

حتى كہ اگر آپ ان كے علم كے بغير نماز كے ليے بھى چليں جائيں، اس ليے آپ كو پہلے تو والد صاحب كو شرعى حكم كے ساتھ مطمئن كرنے كى كوشش كريں، اگر وہ آپ كى بات نہيں سنتے يا آپ كو چھوٹا سمجھتے ہيں تو كسى اور شخص كے ذريعہ ہى انہيں مطمئن كريں، اور اگر وہ پھر بھى قبول نہ كريں تو آپ كے ليے بغير اجازت اور ان كے علم كے بغير جانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن آپ مسجد جاتے ہوئے راستے ميں احتياط سے كام ليں.

دوم:

ہم آپ كے والد كو كہتے ہيں ـ اللہ تعالى انہيں ہدايت سے نوازے ـ كہ اللہ تعالى نے ان پر بہت عظيم ذمہ دارى ڈال ركھى ہے، جو كہ اپنى بيوى بچوں كى تعليم اور نصيت كى ہے.

بخارى اور مسلم شريف كى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے ہر ايك ذمہ دار ہے، اور اسے اس كى رعايا كى ذمہ دارى كے متعلق سوال كيا جائيگا، مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اور اسے اس كى اس رعايا كے متعلق سوال كيا جائيگا"

اور پھر اللہ تعالى نے آپ كو حكم ديا ہے كہ آپ اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى آگ سے محفوظ كريں.

فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! تم اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر سخت قسم كے ايسے فرشتے مقرر ہيں، جو اللہ تعالى كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے، اور وہ وہى كچھ كرتے ہيں جو انہيں حكم ديا جاتا ہے التحريم ( 6 ).

اور نماز كے حكم كے ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور آپ اپنے گھر والوں كو نماز ادا كرنے كا حكم ديں، اور خود بھى اس پر جما رہ ہم تجھ سے روزى طلب نہيں كرتے، بلكہ ہم خود تجھے روزى ديتے ہيں اور آخر ميں بول بالا پرہيزگارى كا ہى ہے طہ ( 132 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جس نے بھى اپنے بچے كى تعليم ميں سستى كى اور تعليم كا خيال نہ ركھا، اور بچے كو بيكار چھوڑ ديا تو اس نے بہت غلط كام كيا، اكثر بچوں كى خرابى ان كے والد كى جانب سے ہوتى ہے كيونكہ وہ ان كى تعليم و تربيت كا خيال نہيں كرتے، اور انہيں دين كے فرائض اور سنن كى تعليم نہيں ديتے، تو انہيں چھوٹى عمر ميں ضائع كر بيٹھتے ہيں، اور خود بھى كوئى فائدہ حاصل نہيں كر پاتے، اور جب اولاد بڑى ہو جاتى ہے تو والدين كو بھى كوئى نفع نہيں ديتى " انتہى

ديكھيں: تحفۃ الودود صفحہ نمبر ( 229 ).

ہم آپ سے ايك بہت ہى اہم سوال كرتے ہيں:

آپ نماز فجر ميں كہاں ہيں ؟! كيا نماز فجر كى باجماعت ادائيگى آپ پر فرض نہيں تھى؟ ! كيا آپ اپنے گھر والوں اور بچوں كے ليے قدوہ اور نمونہ نہيں بن سكتے كہ مسجد ميں جاكر نماز فجر باجماعت ادا كريں ؟!

اگر آپ ايسا كرتے ہيں تو آپ نے اللہ تعالى كى جانب سے اپنے اوپر ايك واجب كى ادائيگى كى، اور مسجد ميں نماز ادا كرنے پر اپنے بچے كى بھى معاونت اور مدد كى ہے، اور اس طرح آپ اس كے اكيلا مسجد جانے كے خوف سے بھى بچ جائيں گے.

اے عزيز والد آپ كو علم ہونا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ جو شخص نماز فجر ادا كرتا ہے وہ اللہ تعالى كے ذمہ ميں ہے تو آپ ايسے شخص كے متعلق كيوں خوفزدہ ہيں جو اللہ تعالى كى ذمہ اور حفظ و امان ميں ہے؟!

جندب بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے صبح كى نماز ادا كى وہ اللہ تعالى كى حفظ و امان اور اس كے ذمہ ميں ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 657 ).

يہاں ذمہ سے مراد ضمانت، اور حفظ وامان مراد ہے، جيسا كہ امام نووى كا كہنا ہے.

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو امانت كى ادائيگى كى توفيق نصيب فرمائے، اور آپ اپنے اہل و عيال كے ليے بہترين قدوہ اور نمونہ بنيں، اور مسجد ميں نمازيں ادا كرنے ميں اپنے بيٹے كے ممد و معاون بنيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب