اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

گنہگار كواگر دنيا ميں حد لگ جائے توكيا اسےآخرت ميں بھي سزا ملےگي

6202

تاریخ اشاعت : 01-03-2005

مشاہدات : 6903

سوال

جب كوئي انسان دنيا ميں گناہ كرے اوراس گناہ كي سزا بھي ملے تو كيا موت كےبعد بھي اسےسزا دي جائےگي؟
مثلا: كسي شخص نے زنا يا چوري كي اوراسےقتل يا ہاتھ كاٹ كردنيا ميں سزا دےدي تو كيا روز قيامت بھي اسے سزا سےدوچار ہونا پڑے گا؟ اور اگر وہ ہم جنس پرست ہے اور اسے پتھر مار مار كرہلاك كرديا گيا تو كيا وہ عذاب قبر سےنجات حاصل كرلےگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نےصحيح بخاري ميں اپني سند كےساتھ عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالي عنہ جو كہ بدري صحابي ہيں سے روايت نقل كي ہے:

عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ ميں بيعت عقبہ كي رات بيعت كرنےوالوں ميں شامل تھا رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےارد گرد صحابہ كرام كا گروہ تھا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے:

آؤ ميرے ساتھ اس پر بيعت كرو كہ تم اللہ تعالي كےساتھ شرك نہيں كرو گےاورنہ ہي چوري اور زنا كرو گےاور نہ تم اپني اولاد كو قتل كروگےاور نہ اپنے آگےپيچھےسے جھوٹا بہتان لگاؤ گے، اور نيكي ميں تم ميري نافرماني نہيں كرو گے، تم ميں سے جوبھي اس كي وفا كرےگا اس كا اجر اللہ تعالي كےذمہ ہے، اور جوكوئي بھي تم ميں سےاس كا مرتكب ہوگا اسے دنيا ميں اس كي سزا دي جائےگي جواس كےليے كفارہ ہوگا، اور جس نےبھي اس ميں سےكسي چيز كا ارتكاب كيا اور اللہ تعالي نےاس كي پردہ پوشي كردي تواس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے اگر اللہ چاہےتواسےسزا دے اور اگر چاہے تو معاف كردے، عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالي كہتےہيں ميں اس پر نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي بيعت كي. صحيح بخاري ( 3 / 143 )حديث نمبر ( 3679 )

حافظ ابن حجر فتح الباري ميں كہتےہيں:

اس حديث سے يہ نكلتا ہےكہ: حد جاري كرنا گناہوں كا كفارہ ہے اگرچہ جس پر حد لگائي گئي ہے اس نےتوبہ نہ بھي كي ہو، جمہور علماء كرام كا يہي قول ہے، اور ايك قول يہ بھي ہےكہ توبہ ضروري ہے بعض تابعين عظام اسي كے قائل ہيں . ديكھيں فتح الباري ( 1 / 6 )

مندرجہ بالا سابقہ حديث امام ترمذي نےبھي اپني سنن ميں روايت كي ہے اور اسے بيان كرنےكےبعد كہتےہيں:

امام شافعي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: اس باب ميں ميں نےاس حديث سے بہتركچھ نہيں سنا كہ گنہگاروں كےليے حدود ان كےگناہوں كا كفارہ ہيں، امام شافعي كہتےہيں كہ: ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ جس نےكوئي گناہ كيا اور اللہ تعالي نےاس كےگناہ كي پردہ پوشي فرمائي تواسے بھي چاہيےكہ وہ اپنےاوپر پردہ ڈالےركھےاور جوكچھ اس كےاور اس كےرب كےمابين ہے اس سے توبہ كرلے.

ابوبكر اور عمر رضي اللہ تعالي عنھماسےبھي روايت كيا گيا ہے كہ انہوں نے ايك شخص كوحكم ديا كہ وہ اپني پردہ پوشي كرے. سنن الترمذي حديث نمبر ( 1439 ) .

لھذا جوشخص بھي ايسا كام كرے جس سےحد واجب ہوتي ہو اسے اس كي ضرورت نہيں كہ وہ قاضي كےپاس جاكر گناہ كا اعتراف كركے اپنےاوپر حد جاري كرنےمطالبہ كرے بلكہ اس كےليے جائز ہےكہ وہ اپني پردہ پوشي كرتا ہوا اس گناہ سےتوبہ كرےجواس كےاور اللہ تعالي كےمابين ہے، اور اس كےساتھ ساتھ كثرت سےاعمال صالحہ بھي كرتا رہے، اس ليےكہ نيكياں برائيوں كوختم كرديتي ہيں، اور توبہ كرنےوالا شخص ايسےہي ہے جيسےكسي شخص كےگناہ نہ ہوں، ہم اللہ تعالي سےدعا كرتےہيں كہ وہ ہميں سلامتي وعافيت سے نوازے اور ہمارے گناہ معاف فرمائے .

وصلي اللہ علي نبينا محمد .

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد