اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

پيشاب سے فارغ ہونے كے ليے گہرائى ميں جانا اور تفتيش كرنا اور دبانا مشروع نہيں

65521

تاریخ اشاعت : 04-06-2007

مشاہدات : 11741

سوال

كيا مسلمان شخص كے ليے عضو تناسل كى نالى كھول كر ديكھنا، يا چھونا جائز ہے تا كہ پيشاب مكمل طور پر خارج ہونے كا يقين ہو سكے، يا كہ صرف ظاہر كو ديكھنا ہى كافى ہے ؟
اگر كوئى شخص عضو تناسل پيشاب كى نالى ميں سائل گاڑھا مادے كے آثار ديكھے تو كيا حكم ہے، كيا اس طرح اس كا روزہ اور وضوء قبول ہے ليكن يہ مادہ عضو تناسل سے باہر نہيں آيا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى كے ليے مشروع نہيں كہ پيشاب مكمل طور پر خارج ہونے كا يقين كرنے كے ليے عضو تناسل كا سورخ كھول كر ديكھے، كيونكہ يہ گہرائى اور تكلف ہے جو شريعت كى آسانى كے منافى ہے، اور اسى طرح يہ وسوسہ كا باعث بھى ہے، بلكہ مشروع يہ ہے كہ پيشاب سے فارغ ہونے كے بعد عضو تناسل كو دھويا جائے.

اور اسى طرح يہ بھى مشروع ہے كہ پيشاب سے فارغ ہونے كے بعد شرمگاہ پر پانى كے چھينٹے مارے جائيں تا كہ وسوسہ ختم ہو سكے.

ابن ماجہ رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كيا تو اپنى شرمگاہ پر پانى كے چھينٹے مارے "

ابن ماجہ حديث نمبر ( 464 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" حنفيہ، شافعيہ، اور حنابلہ نے بيان كيا ہے كہ جب پانى كے ساتھ استنجاء سے فارغ ہو تو اس كے ليے اپنى شرمگاہ يا سلوار پر پانى كے چھينٹے مارنا مستحب ہے، تا كہ وسوسہ كا قلع قمع كيا جاسكے، حتى كہ اگر شك پيدا ہو تو يہ چھينٹے اس نمى پر محمول ہوں، جب تك اس كے خلاف اسے يقين نہ ہو جائے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 4 / 125 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عضو تناسل كى انگلى كے ساتھ تفتيش وغيرہ كرنا يہ سب بدعت ہے، آئمۃ اسلام كے ہاں نہ تو مستحب ہے اور نہ ہى واجب، بلكہ اسى طرح عضو تناسل كو نچوڑنا اور دبانا صحيح قول كے مطابق بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنا مشروع نہيں كيا.

اور اسى طرح انگلى سے پيشاب نكالنا بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ مشروع نہيں كيا، اور اس سلسلے ميں جو حديث مروى ہے اس كى كوئى اصل نہيں وہ ضعيف ہے، پيشاب طبعى طور پر خود ہى خارج ہوتا ہے، اور جب پيشاب كرنے سے فارغ ہو جائے تو وہ طبعى طور پر خود بخود ہى رك جاتا ہے، اور يہ بالكل اسى طرح ہے جيسا كسى كا قول ہے:

يہ تھن كى طرح ہے اگر اسے چھوڑ ديا جائے تو قرار پكڑ جاتا ہے اور اس سے كچھ خارج نہيں ہوتا، اور اگر اسے پسما كر دھويا جائے تو اس سے دودھ خارج ہوتا ہے.

اور جب بھى انسان اپنا عضو تناسل كھولےگا اس سے كچھ نہ كچھ خارج ہوگا، اور اگر اسے چھوڑ دے تو كچھ بھى خارج نہيں ہوگا، اور بعض اوقات اسے يہ خيال آتا ہے كہ عضو تناسل سے كچھ خارج ہوا ہے، جو كہ وسوسہ ہے، اور بعض اوقات كوئى شخص عضو تناسل كے سرے پر نمى اور ٹھنڈك محسوس كرتا ہے تو گمان كرتا ہے كہ كوئى چيز خارج ہوئى ہے حالانكہ كچھ خارج نہيں ہوا ہوتا.

پيشاب عضو تناسل كى نالى ميں ٹھرا ہوا اور محبوس ہوتا ہے، اس ليے اگر عضو تناسل، يا شرمگاہ يا سوراخ كو پتھر يا انگلى وغيرہ سے نچوڑا جائے اس سے رطوبت خارج ہوتى ہے، تو يہ بھى بدعت ہے، علماء كرام كے اتفاق كے مطابق اس ٹھرے ہوئے پيشاب كو نہ تو پتھر سے اور نہ ہے انگلى كے ساتھ باہر نكالنے كى ضرورت ہے.

بلكہ جب سے اسے باہر نكالا جائيگا اس كى جگہ اور آ جائيگا، اس ليے اس پر چھينٹے مارے جائيگے، اور پتھروں كے ساتھ استنجاء كرنا كافى ہے اس كے بعد پانى كے ساتھ عضو تناسل دھونے كى كوئى ضرورت نہيں، اور استنجاء كرنے والے شخص كے ليے اپنى شرمگاہ پر چھينٹے مارنے مستحب ہيں، اور اگر وہ رطوبت اور نمى محسوس كرے تو كہے كہ اس پانى كى وجہ سے ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 106 ).

اور جب پيشاب باہر نہ آئے تو اس كا كوئى حكم نہيں، اور نہ ہى اس سے وضوء اور نماز متاثر ہوتى ہے، اور رہا روزے كا مسئلہ تو پيشاب كے خارج ہونے سے روزہ بھى متاثر نہيں ہوتا، اور نہ ہى اس سے انسان نجس اور پليد ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب