اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

عورت كو روزہ بہت ہى كمزور كر دے تو كيا وہ روزہ نہ ركھے ؟

سوال

رمضان المبارك ميں دن كے وقت پياس كى شدت كى بنا پر مجھے سر درد جسمانى كمزورى اور قئي جيسى حالت سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جس كى بنا پر مجھے صرف پانى پينا پڑتا ہے، ميرے اس عمل پر ميرا دل ٹوٹتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں نمازوں اور اذكار اور قرآت قرآن كى محافظت كرتى ہوں، مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى نے شريعت كو بہت آسان اور سہل بنايا ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے روزوں كى آيت ميں فرمايا:

اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تم پر مشكل نہيں كرنا چاہتا .

اور پھر اللہ تعالى نے مريض كے ليے رمضان ميں روزہ نہ ركھنا مباح كيا ہے جس مرض كى بنا پر روزہ نہ ركھنا مباح ہے اس ميں وہ بيمارى شامل ہے جو بالفعل اور واقعتا پائى جائے جو روزہ ركھنے كى بنا پر زائد ہونے يا شفايابى ميں تاخير ہونے كا خدشہ ہو، يا كسى بيمارى كى پيدا ہونے كا خدشہ ہو، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 12488 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

اس بنا پر اگر سائلہ عورت كے ليے رمضان ميں روزہ ركھنے كى بنا پر جسم ميں كمزورى كى بنا پر قئ اور سردرد جيسى حالت ہو جاتى ہے تو اس كے ليے رمضان ميں روزہ نہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اگر وہ بعد ميں روزہ كى قضاء كرنے كى استطاعت ركھتى ہے تو قضاء كر لے اور اگراستطاعت نہيں تو پھر اس كى جگہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كوئى شخص پياس كى بنا پر فرضى روزہ توڑ دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟

" اس كا حكم يہ ہے كہ جس شخص نے بھى فرضى روزہ ركھا ہو چاہے رمضان كا ہو يا قضاء يا كفارہ يا فديہ كا روزہ اس كے ليے روزہ توڑنا حرام ہے، ليكن اگر پياس اتنى شديد ہو جائے كہ نقصان اور ضرر كا خدشہ ہو يا پھر ضائع اور تلف ہونے كا تو اس حالت ميں اس كے ليے روزہ كھولنا جائز ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں.

چاہے رمضان المبارك ميں بھى ايسى حالت بن جائےاور اسے ضرر و نقصان كا خدشہ ہو يا پھر ہلاكت كا خدشہ تو اس كے ليے روزہ توڑنا جائز ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 149 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب