جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

فجر كے فرضوں كے بعد كوئى سنت نہيں ؟

65746

تاریخ اشاعت : 19-02-2011

مشاہدات : 18504

سوال

كيا نماز فجر كے بعد سنتيں ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز فجر كے بعد كوئى سنتيں نہيں ہيں.

ليكن فجر سے قبل دو ركعت سنت مؤكدہ ہيں، اور سنت مؤكدہ ميں فجر كى انہيں دو سنتوں كى زيادہ تاكيد آئى ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو يہ سنتيں سفر ميں ترك كرتے اور نہ ہى حضر ميں.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فجر كى دو ركعتوں سے زيادہ كسى بھى نفل نماز كا اتنا خيال نہيں ركھتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 724 )

اور فجر كى ان دو سنتوں كى فضيلت كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" فجر كى دو ركعت دنيا اور دنيا ميں جو كچھ ہے اس سے بھى بہتر ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 725 ).

فجر كى سنتوں ميں مسنون يہ ہے كہ نمازى ان ميں سورۃ الكافرون، اور سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) پڑھے، اس كى دليل مندرجہ ذيل مسلم شريف كى حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فجر كى دو ركعت ميں قل يا ايہا الكافرون، اور قل ہو اللہ احد، كى تلاوت كى"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 726 ).

اور نماز فجر سے قبل اگر كسى شخص كى سنتيں رہ جائيں اور وہ ادا نہ كر سكا ہو تو وہ نماز فجر كے بعد انہيں ادا كر سكتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

قيس بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكلے تو نماز كے ليے اقامت كہى گئى اور ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صبح كى نماز ادا كى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز ادا كرتے ہوئے پايا، تو فرمانے لگے:

" اے قيس ٹھر جاؤ، كيا دو نمازيں ايك ساتھ ؟

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے فجر كى دو ركعت ادا نہيں كى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر نہيں "

اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں:

" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 422 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1267 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ جس كى فجر كى سنتيں فرض ادا كرنے سے قبل رہ گئيں ہوں وہ طلوع شمس سے قبل يہ دو ركعات ادا كر سكتا ہے" انتہى

ماخوذ از: عون المعبود.

اور تحفۃ الاحوذى ميں ہے:

" كيا دو نمازيں ايك ساتھ ؟ " يہ استفہام انكارى ہے، يعنى كيا ايك وقت ميں دو فرض نمازيں؟ كيونكہ نماز فجر كے بعد نفلى نماز نہيں ہے.

" تو پھر نہيں "

تنبيہ: آپ كو علم ہونا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا: " تو پھر نہيں " اس كا معنى يہ ہے كہ تو پھر ان كے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں ہے، اور اس پر ابو داود كى روايت كے يہ الفاظ دلالت كرتے ہيں:

" تو انہوں نے كچھ نہ كہا"

عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے، اور ابن ابى شيبہ كى روايت ان الفاظ كے ساتھ ہے:

" تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو انہيں حكم ديا اور نہ ہى انہيں منع كيا"

اور ابن حبان كى روايت ميں ہے:

" تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كا انكار نہيں كيا"

اور يہ سب روايات ايك دوسرے كى تفسير اور شرح بيان كر رہى ہيں. انتہى مختصرا

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب