جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ميرى تلاوت سے رشتہ دار كس طرح فائد ہ حاصل كر سكتے ہيں

6648

تاریخ اشاعت : 17-02-2006

مشاہدات : 5580

سوال

ميں چاہتا ہوں كے ميرے قرآن مجيد پڑھنے سے ميرے فوت شدہ رشتہ دار مستفيد ہوں، اور ميں اپنے اور خاندان كے ليے اللہ تعالى سے دعا كرنا چاہتا ہوں، تو وہ كونسے ايسے اعمال اور امور ہيں جو مجھے سرانجام دينا ہونگے؟
مجھے علم ہے كہ دعا ميں ہاتھ اٹھانے اور انہيں منہ پر پھيرنا بدعت شمار ہوتا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحيح يہ ہے كہ ميت كو ان بدنى عبادات سے فائدہ پہنچتا ہے جو اس كے اقرباء اور رشتہ دار اسے ثواب پہنچانے كے مقصد سے كريں ( بدنى عبادات ميں روزہ وغيرہ شامل ہوتا ہے )

اور اسى طرح مالى عبادات مثلا ميت كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا، اور غلام آزاد كرنا، اور اگر اس كا كچھ حصہ ہو مشروع نہيں.

اس كى دليل سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے كہ انہوں نے اپنا باغ فوت شدہ والدہ كى جانب سے صدقہ كر ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے جائز قرار ديا.

اسے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے، اس كے علاوہ دوسرى احاديث بھى اس پر دلالت كرتى ہيں.

ليكن ميت كى جانب سے صدقہ كرنا قرآن مجيد كى تلاوت كركے اسے ثواب ہديہ كرنے سے افضل ہے، اور اسى طرح اس كے ليے دعائے استغفار كرنا باقى اعمال سے افضل اور بہتر ہے.

اور جب آپ اپنے كسى قريبى كى جانب سے صدقہ كرتے ہيں يا اس كے ليے دعا كرتے ہيں - يا اس كے علاوہ كوئى اور جائز عمل كرتے ہيں - تو ميت كو اس سے فائدہ ہوتا ہے، اور يہ آپ كے ليے بھى اس كا اجروثواب ہوگا، اور پھر اللہ تعالى كا فضل تو بہت وسيع ہے.

اور رہا مسئلہ دعا كے وقت ہاتھ اٹھانے كا تو ہاتھ اٹھانا بدعت نہيں، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، اور دعا كى قبوليت كے اسباب ميں شامل ہے.

سلمان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :

" يقينا اللہ تعالى بڑى حيا والا اور كرم كا مالك ہے، جب آدمى اس كى جانب ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اسے خالى لوٹانے سے شرماتا ہے"

اسے مسند احمد اور ابو داود نے روايت كيا ہے.

اور كچھ ايسے مقامات ہيں جہاں ہاتھ اٹھانے مكروہ ہيں جائز نہيں، مثلا جب خطيب دوران خطبہ دعا كرے تو ہاتھ نہيں اٹھانے چاہيں، ليكن اگر خطيب خطبہ جمعہ ميں بارش كى دعا كرے تو ہاتھ اٹھانا مشروع ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت ہے.

اور اسى طرح فرضى نمازوں كے بعد اجتماعى يا انفرادى دعا ميں ہاتھ اٹھانے بدعت ہيں، كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى.

اور دعا كے بعد چہرے يا سينہ يا بدن پر ہاتھ پھيرنے بدعت اور ناجائز ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد