منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

زندگى ميں ہى ورثاء كے مابين مال تقسيم كرنا

71297

تاریخ اشاعت : 12-06-2007

مشاہدات : 5713

سوال

كيا كوئى شخص اپنى زندگى ميں ہى اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كر سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں اس كے ليے ايسا كرنا جائز ہے، ليكن اس كے ليے ايك شرط ہے كہ: اس سے كسى ايك وراث كو بھى نقصان دينا مقصود نہ ہو، كہ كسى كو دے اور كسى كو نہ دے، يا پھر انہيں نقصان اور ضرر پہنچاتے ہوئے ان كے حق سے بھى كم دے.

اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے وراثت كى تقسيم خود فرمائى ہے، اور ورثاء كے حصے خود مقرر كيے ہيں، اور جو شخص بھى اس سے باہر جائيگا اس كے ليے اللہ تعالى بہت سخت وعيد بيان فرمائى ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كريگا وہ ايسى جنتوں اور باغات ميں داخل ہو گا جس كے نيچے سے نہريں بہتى ہيں، اس ميں ہميشہ رہيگا، اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا اور اس كى حدود سے تجاوز كريگا، وہ جہنم كى آگ ميں داخل ہوگا اور اس ميں ہميشہ كے ليے رہےگا، اور اس كے ليے اہانت آميز عذاب ہے النساء ( 13 - 14 ).

افضل اور بہتر تو يہى ہے كہ وہ ايسا نہ كرے، بلكہ اپنا مال اپنے پاس ہى رہنے دے، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس كى وفات كے وقت موجود ورثاء ميں اس كا تركہ شرعى تقسيم كے مطابق تقسيم كر ديا جائيگا، اور پھر انسان كو اس كا كوئى علم نہيں كہ پہلے كسے موت آنى ہے حتى كہ وہ اپنا مال اپنے ورثاء ميں تقسيم كرتا پھرے، اور ہو سكتا ہے اس كى عمر لمبى ہو جائے اور اسے اس مال كى ضرورت ہو.

الانصاف كے مصنف لكھتے ہيں:

" صحيح مذہب كے مطابق زندہ شخص كے اپنا مال اپنى اولاد كے مابين تقسيم كرنے ميں كوئى كراہت نہيں، اور ان ( يعنى ايك دوسرے قول ميں امام احمد رحمہ اللہ نے كراہت بيان كى ہے ) سے كراہت منقول ہے.

الرعايۃ الكبرى ميں وہ كہتے ہيں: اگر كسى كے ليے ممكن ہو كہ اس كے ہاں اولاد ہو سكتى ہے تو پھر اس كے ليے اپنى زندگى ميں اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كرنا مكروہ ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 7 / 142 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" ہم آپ كے والد كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 463 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب