اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

خاوند كے مال سے صدقہ كرنا

73219

تاریخ اشاعت : 25-11-2012

مشاہدات : 4037

سوال

ميرا خاوند اپنى سارى تنخواہ مجھے لا كر ديتا ہے تا كہ ميں جس طرح چاہوں اسے خرچ كروں، كيا ميرے ليے اس كى اجازت كے بغير صدقہ و خيرات كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ اگر اسے علم ہو جائے تو ان شاء اللہ وہ خوش اور راضى ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر بيوى كو علم ہو كہ خاوند ايسا كرنے سے راضى ہو گا تو اس كے ليے خاوند كے مال سے صدقہ و خيرات كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور عورت اتنا صدقہ و خيرات كرے جس كے متعلق علم ہو كہ اس پر خاوند راضى ہو جائيگا، ليكن زيادہ مال صدقہ و خيرات كرنے كے ليے خاوند كى اجازت لينا ضرورى ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر عورت بغير كسى خرابى كے خاوند كے گھر سے خرچ ( صدقہ ) كرتى ہے تو اسے اس كا اجروثواب حاصل ہو گا، اور اس كے خاوند كو بھى كمائى كا اجروثواب اور بيوى كو جو خرچ كيا ہے كا اجروثواب ملےگا، اور خزانچى كو بھى اسى طرح اجر حاصل ہوگا، ان كے اجروثواب ميں كسى قسم كى كوئى كمى نہيں كى جائيگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1425 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 1029 ).

اور اسماء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس وہى كچھ ہوتا ہے جو مجھے زبير رضى اللہ تعالى عنہ ديں، تو كيا اگر ميں تھوڑا سا كسى كو دے دوں جو زبير مجھے ديتا ہے تو مجھے كوئى گناہ تو نہيں ہوگا ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم حسب استطاعت خرچ كيا كرو، اورت جمع كر كے مت ركھو كہ بخل كرو، اللہ بھى تم پر روزى تنگ كر دے گا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1434 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1029 ).

الرضخ: قليل سى چيز اللہ كسى كو دينا.

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 113 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:

اجازت كى دو قسميں ہيں:

پہلى:

صدقہ و خيرات اور نفقہ كى صريح اجازت.

دوسرى:

عرف و عادت كے مفہوم سے اجازت، مثلا سوالى كو روٹى وغيرہ دينا جس كى معاشرہ ميں عادت ہو، اور اس كے متعلق عرف كے ذريعہ علم ہو كہ خاوند اور مالك ايسا كرنے پر راضى ہوگا، اس ميں اس كى اجازت ہے چاہے اس نے كہا نہ بھى ہو ...

اور يہ علم ميں ركھيں كہ يہ سب كچھ تھوڑى اور قليل سى چيز ميں ہے جس كے بارہ ميں علم ہو كہ عام طور پر خاوند راضى ہو گا، اور اگر متعارف اور عادت سے زيادہ چيز ہو تو جائز نہيں ہے.

درج ذيل فرمان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا معنى بھى يہى ہے:

" اگر كوئى عورت اپنے گھر كا غلہ بغير كسى خرابى كے خرچ ( صدقہ ) كرتى ہے "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مقدار كى طرف اشارہ كيا ہے جس پر عام طور پر خاوند راضى ہو جاتا ہے " انتہى

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 7 / 113 ).

اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اصل يہى ہے كہ عور كو اجازت كے بغير اپنے خاوند كے مال سے صدقہ و خيرات كرنے كا حق حاصل نہيں، مگر تھوڑى بہت چيز جو عام طور پر معروف ہو كر سكتى ہے، مثلا پڑوسى كے ساتھ صلہ رحمى كرنا، اور سوالى كو تھوڑى سى چيز دينا جس سے خاوند كو نقصان نہ ہوتا ہو، اور اس كا اجروثواب دونوں كو حاصل ہوگا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب عورت اپنے گھر كا كھانا بغير كسى خرابى كے خرچ كرتى ہے تو اس نے جو خرچ كيا ہے اسے اس كا ثواب حاصل ہوگا، اور اس كے خاوند كو اس نے جو كمايا اس كا اجروثواب ملےگا، اور خزانچى كو بھى اسى طرح، ان ميں سے كسى ايك كے اجروثواب ميں بھى كمى نہيں كى جائيگى " متفق عليہ. انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 81 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا مسئلہ عورت جو اپنے خاوند كے مال سے خرچ كرتى ہے اور خاوند اسے ايسا كرنے سے منع نہيں كرتا، اور بيوى كو بھى خاوند كے متعلق اس كا علم ہے تو پھر ايسا كرنے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن اگر خاوند اسے ايسا كرنے سے منع كرتا ہے تو پھر يہ جائز نہيں ہوگا " انتہى

ديكھيں: المنتقى ( 4 ) سوال نمبر ( 197 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 47705 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب