جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ننگے سر تصوير بنوانا پر مجبور كرنا

74322

تاریخ اشاعت : 03-03-2008

مشاہدات : 8803

سوال

ہم xxx ميں رہتے ہيں، اور جب ہم پاسپورٹ بنوانا چاہيں تو ہميں تصوير بنوانى پڑتى ہے، ليكن مشكل يہ درپيش ہے كہ عورتيں اگر سر ڈھانپ كر تصوير اتروائيں تو وہ تصوير قبول نہيں كرتے، بلكہ كہتے ہيں كہ بغير اسكارف كے ننگے سر تصوير ہونى چاہيے، اس وجہ سے بہت سارى مسلمان عورتيں پاسپورٹ ہى نہيں بنواتيں، كيونكہ وہ سر سے اسكارف نہيں اتارنا چاہتيں.
اس ليےوہ شخصى معاملات كو مكمل نہيں كروا سكتيں جن كا مطالبہ ان سے كيا جاتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ اگر يہ حالت اسلام ميں ضروريات ميں شمار ہوتى ہے، تو ہو سكتا ہے ان كے ليے اجازت دے دى جائے وہ سر سے كپڑا اتار ليں، ليكن اگر انہيں اس كى اجازت نہيں تو انہيں كيا كرنا چاہيے ؟
اس ميں يہ اضافہ بھى كہ جاہليت ( جب علم نہ تھا ) ميں كئى ايك عورتيں سر ننگا كر كے تصوير بنا كر پاسپورٹ حاصل كرتى تھيں، انہوں نے كچھ عرصہ قبل ہى اسلام قبول كيا ہے، ليكن وہ يہ پاسپورٹ ہر جگہ استعمال كرتى ہيں، اور جب ضرورت كى بنا پر انہيں كچھ حالات ميں پاسپورٹ دكھانا پڑے تو وہ اس حالت ميں كيا كريں ؟
ميرى گزارش ہے كہ حكومت كے ذمہ داران اسكارف يعنى سر ڈھانپ كر بنوائى گئى تصوير قبول نہيں كرتے، حالانكہ يہ ان كے قوانين كے مطابق ہے، اور اس كى بنا پر كوئى مشكلات پيدا نہيں ہوتى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشك و شبہ كچھ ممالك جو عورت كو پردہ كرنے كا التزام نہيں كرنے ديتے، اور اسےمنع كرتے ہيں، يہ عظيم جرم اور برا كام شمار ہوتا ہے اگر يہ حكم اور قانون كسى كافر ملك سے صادر ہوا ہو تو كوئى بات نہيں كيونكہ كفركے بعد كوئى بڑا گناہ نہيں.

ليكن مصيبت يہ ہے كہ اس طرح كے حكم ايسے لوگوں كى طرف سے صادر ہوتے ہيں جو اسلام كى طرف منسوب ہيں، اور جرم اور قباحت ميں اسى طرح يہ بھى ہے كہ عورت كو پاسپورٹ اور شناختى كارڈ وغيرہ كے ليے ننگے سر تصوير بنوانے پر مجبور كرنا.

اس وقت جب ہم ديكھتے ہيں كہ بعض كفار حكومتيں عورتوں كو سر پر اسكارف باندھ كر تصوير بنوانے كى اجازت ديتے ہيں، تو اس كے برعكس ہم ديكھتے ہيں اسلام كى جانب منسوب حكومتيں اس سے انكار كرتى اور اس ميں تشدد كرتى ہيں، اور بعض كفار ملك اور علاقے بھى ـ اب ـ كوشش كر رہى ہيں كہ مسلمان عورتوں كو اسكارف والى تصوير بنانے سے منع كر ديا جائے ـ تو يہ ـ جرم كے اعتبار سے ـ ان ملكوں اور نظاموں كے بعد جو اسلام كى طرف منسوب ہيں دوسرے درجہ ميں آتے ہيں.

اور ( 26 / 4 / 2004 ) ميں وسائل اعلام اور ميڈيا نے يہ خبر نقل كى كہ جرمنى كى عدالت نے مسلمان عورتوں كو سر پراسكارف باندھ كر پاسپورٹ كے ليے تصوير پيش كرنے كى اجازت دے دى ہے.

اور روسى سپريم كورٹ نے وزارت داخلہ كے قانون كو معطل كر ديا جس كى بنا پر روسى شہريوں پر ننگے سر تصوير بنانا لازم تھا، اور سپريم كورٹ نے يہ حكم صادر كيا كہ جن روسى شہرى عورتوں كا دينى اعتقاد ننگے سر تصوير بنانے كى اجازت نہيں ديتا، اور اجنبى مردوں كے سامنے ننگے سر آنے كى اجازت نہيں وہ سر پر اسكارف والى تصوير پاسپورٹ پر لگوا سكتى ہيں.

تو آپ كافر ممالك كى عدالتوں كو ديكھيں كہ وہ مسلمان عورتوں كے شرعى حق كا ساتھ كس طرح دے رہى ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں اسلام كى طرف منسوب ممالك ميں اس حق كے خلاف اعلان جنگ كيا جا رہا ہے.

بہر حال عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ تعالى كى نافرمانى ميں كسى كى بھى اطاعت كرے، نہ تو شارع عام پر پردہ اتارنےميں، اور نہ ہى تصوير بنانے ميں، اور نہ ہى عورت كے ليے ايسا كرنا جائز ہے، ليكن اگر معاملہ ضرورت كى حد تك پہنچ جائے مثلا اسے بزور طاقت مجبور كيا جائے، يا پھر ان كاغذات كو جارى كروانا زندگى كى ضرورت ہو، تو پھر جائز ہے.

اور اس معاملہ ميں مخالفت جائز نہيں، ليكن اگر نقصان اور ضرر يقينى ہو، يا پھر ظن غالب كى بنا پر ضرر ہو جائز ہے، كسى غير ضرورى سفر كے ليے ايسا نہيں كيا جا سكتا، بلكہ يہ انتہائى شديد ضرورت كى بنا پر ايسا كيا جاسكتا ہے، مثلا شناختى كارڈ يا اقامہ وغيرہ كے ليے.

اور جو اس طرح كى تصاوير بنوانے پر مجبور ہو تو وہ كسى اجنبى اور غير مرد سے تصوير مت بنوائے، بلكہ اسے چاہيے كہ يا تو وہ اپنے محرم مرد سے تصوير بنوائے، يا پھر كسى عورت سے، ليكن اگر محرم مرد يا عورت نہ ملے تو پھر وہ معذور ہو گى.

كسى بھى عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ سرننگا كرنے ميں تجاوز كرے، بعض حكومتيں اور نظام اس بات كى اجازت ديتے ہيں كہ سر كا اگلا حصہ اور كان ننگے كيے جائيں، اس بنا پر وہ اس سے تجاوز مت كرے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں سے تكليفوں كو دور كرے، اور ان كے ليے اس دين پر عمل كرنا ممكن بنائے جو اس نے ان كے ليے پسند فرمايا ہے، اور اس ميں ان كى مدد فرمائے، اور انہيں اطاعت پر ثابت قدم ركھے.

آپ سے گزارش ہے كہ سوال نمبر ( 45672 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، يہ بہت اہم ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب