جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نقل و حمل كى گاڑيوں ميں كوئى زكاۃ نہيں

74988

تاریخ اشاعت : 18-02-2006

مشاہدات : 4083

سوال

كيا نقل و حمل كى ملكيتى گاڑيوں پر زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نقل و حمل والى گاڑيوں پر زكاۃ نہيں ہے، بلكہ ان كى اجرت نصاب كو پہنچ جائے تو سال گزرنے كے بعد اس پر زكاۃ واجب ہو گى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا غلہ اور مسافروں كى نقل و حمل ميں استعمال ہونے والى گاڑيوں پر زكاۃ واجب ہے، اور اسى طرح جو اونٹ اس كے مشابہ ہيں ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" سامان اور سواريوں كى نقل و حمل اور بار بردارى كے ليے استعمال ہونے والى گاڑيوں اور اونٹ ميں زكاۃ نہيں ہے، كيونكہ يہ فروخت اور تجارت كے ليے نہيں بلكہ يہ تو بار بردارى اور نقل و حمل كے ليے ركھى گئى ہيں، ليكن اگر گاڑياں فروخت كرنے ليے ہوں اور اسى طرح اونٹ اور گدھے، اور خچر اور وہ جانور جن كى خريد و فروخت جائز ہے، وہ تجارت اور فروخت كرنے كے ليے ہوں تو اس ميں زكاۃ و اجب ہو گى؛ كيونكہ وہ اس سے ايك تجارتى سامان بن كر تجارت كے زمرے ميں آتى ہيں، تو اس طرح اس ميں زكاۃ واجب ہو گى، اس كى دليل ابو داود وغيرہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں اس چيز كى زكاۃ دينے كا حكم ديتے جو ہم فروخت كرنے كے ليے تيار كرتے "

جمہور اہل علم كا مسلك يہى ہے، اور امام ابو بكر بن منذر رحمہ اللہ تعالى نے اس پر اہل علم كا اجماع بيان كيا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 14 / 181 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ہم نقل و حمل اور بطور ٹيكسى استعمال ہونے والى گاڑيوں كى زكاۃ كس طرح نكاليں، كيا اس كى قيمت پر زكاۃ ہو گي يا اس كى اجرت اور آمدن پر ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" جب يہ گاڑياں بطور اجرت اور ٹيكسى استعمال ہوتى ہيں تو ان كى آمدن ميں زكاۃ واجب ہو، جبكہ يہ اجرت نصاب كو پہنچے اور اس پر سال گزر جائے تو پھر زكاۃ ہو گى، نہ كہ اس كى قيمت پر" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 349 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب