الحمد للہ.
اول:
سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب ميں حائضہ عورت كو طلاق واقع ہونے يا نہ ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف بيان ہو چكا ہے، اور صحيح يہى ہے كہ حيض كى حالت ميں طلاق واقع نہيں ہوتى.
دوم:
حيض شروع ہونے اور ختم ہونے ميں عورت كى بات تسليم كى جائيگى، اور اس طرح كے دوسرے مسائل جب پر مرد مطلع نہيں ہوتے؛ كيونكہ اس مسئلہ ميں عورت امين ہے.
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سفيان بن عمرو بن دينار نے ہميں عبيد بن عمير سے خبر دى كہ ان كا قول ہے:
" اپنى شرمگاہ پر عورت امين ہے " انتہى
ديكھيں: الام ( 5 / 225 ).
اس سلسلہ ميں عورت كى بات قبول كرنے پر درج ذيل فرمان بارى تعالى بھى دلالت كرتا ہے:
اور ان عورتوں كے ليے حلال نہيں كہ اللہ تعالى نے ان كے رحموں ميں جو پيدا كيا ہے اسے چھپائيں، اگر وہ اللہ اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتى ہيں البقرۃ ( 228 ).
جصاص رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كو چھپانے كر نہ ركھنے كى وعظ و نصيحت كى ہے تو يہ اس كى دليل ہے كہ حيض ہونے يا نہ ہونے ميں بھى اس كى بات قبول كى جائيگى، اور اسى طرح حمل ہونے ميں بھى؛ كيونكہ يہ دونوں اس ميں شامل ہوتى ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے رحم ميں پيدا كيا ہے.
اور اگر اس ميں عورت كا قول قبول نہ ہوتا تو اسے چھپا كر نہ ركھنے كا وعظ نہ كيا جاتا، اس سے يہ ثابت ہوا كہ جب عورت كہے كہ: " مجھے حيض ہے " تو خاوند كے ليے اس سے وطئ و جماع كرنا حلال نہيں، اور اگر وہ كہتى ہے كہ: " وہ پاك ہو چكى ہے " تو اس كے ليے اس سے وطئ و جماع كرنا حلال ہو چكا ہے.
ہمارے اصحاب كا يہى كہنا ہے كہ جب عورت كو كوئى شخص كہے كہ: اگر تجھے حيض آيا ہے تو تجھے طلاق ، تو عورت كہنے لگى: مجھے حيض ہے تو اسے طلاق ہو جائيگى اور اس كا قول بطور دليل ہوگا " انتہى
ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 506 ).
سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں دليل پائى جاتى ہے كہ عورت كى اس معاملہ كے متعلق بات قبول كى جائيگى جس پر كوئى اور مطلع نہيں ہو سكتا، مثلا حمل اور حيض وغيرہ " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 102 ).
اور " معين الاحكام " ميں درج ہے:
" اكيلى عورت كے قول كے مطابق فيصلہ كرنے ميں يہ ہے كہ ان اشياء ميں جن پر عورتوں كے علاوہ كوئى اور مطلع نہيں ہو سكتا مثلا ولادت، كنوارہ پن، اور ثيب ہونا، حيض، حمل اور حمل كا ساقط ہونا، استھلال، اور آزاد عورتوں اور لونڈيوں كے عيوب وغيرہ، اور ہر وہ چيز جو ان كے لباس كے نيچے ہے، اس كى وجہ يہ ہے كہ جب ان معاملات ميں مرد حاضر نہيں ہو سكتے اور نہ ہى وہ اس پر مطلع ہو سكتے ہيں، تو پھر اس ميں عورتوں كو ہى ضرورت كے وقت مرد كے قائم مقام بنايا جائيگا " انتہى
ديكھيں: معين الاحكام صفحہ ( 95 ).
اس ميں عورت كے قول كو قبول كرنے كى شرط يہ ہے كہ عورت اس وقت ميں حيض آنے كا ختم ہونے كا دعوى كرے جس ميں يہ ممكن تھا، ليكن اگر وہ ايسے وقت ميں دعوى كرتى ہے جس ميں حيض آنا يا ختم ہونا ممكن نہ تھا تو پھر عورت كا قول قبول نہيں ہوگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كى عدت كے بارہ ميں عورت سے رجوع كيا جائيگا اور اسكى بات پر عمل ہوگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ليے حلال نہيں كہ اللہ نے ان كے رحموں ميں جو پيدا كيا ہے اسے چھپائيں .
اس كى وجہ يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كا قول معتبر شمار كيا ہے؛ اور اگر اس كا قول معتبر نہ ہوتا تو پھر عورت كے چھپانے كى كوئى قدر و قيمت نہ ہوتى؛ اس ليے اگر عورت يہ دعوى كرے كہ اس كى عدت گزر چكى ہے، اور يہ دعوى اس عرصہ ميں ہو جب يہ ممكن ہو تو اس كى تصديق كى جائيگى؛ اور وہ اس پر امين ہے.
ليكن اگر اس نے دعوى ايسے وقت كيا كہ اس كى عدت گز چكى ہے جس ميں يہ ممكن نہ تھى تو اس كا قول مردود ہے تسليم نہيں كيا جائيگا، كيونكہ دعوى كى سماعت كى شروط ميں يہ شامل ہے كہ وہ ممكن ہو؛ اور مستحيل دعوى بالكل اصل ميں سنا ہى نہيں جائيگا " انتہى
ديكھيں: تفسير سورۃ البقرۃ ( 102 ).
مزيد آپ المغنى ( 7 / 158 ) اور الفواكہ الدوانى ( 2 / 34 ) كا بھى مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .