سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایسا جو کہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اسے چوری شدہ اشیاء کی جگہ کا علم ہے ۔

7873

تاریخ اشاعت : 15-03-2004

مشاہدات : 17106

سوال

ایک دجال یہ گمان کرتا ہے کہ وہ چور کو اس کی غیر موجودگی میں چوری کرنے کے بعد پہچان سکتا ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے جسے اکثر لوگ نہیں جانتے وہ ایک پانی کی پلیٹ اور ایسے بچے کو منگواتا ہے جو نابالغ ہو اور اس نے اپنی ماں کا دو سال مکمل دودھ پیا ہو اور کتے سے نہ ڈرے پھر وہ قرآن سے کچھ پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ایسے کلمات بھی جس کے معنی کی سمجھ نہیں آتی تو بچے سے پوچھتا ہے کہ کیا تو نے اس پانی میں جو کہ پلیٹ میں ہے کچھ دیکھا ہے ؟
تو بچہ اس چور کے مکمل طور پر اوصاف بیان کرتا ہے اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ اس نے چوری کی گئی اشیاء کہاں چھپائی ہیں تو دین اسلام کا اس کے بارہ میں کیا حکم ہے ؟
اور کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے اور تنگی اور خوشی میں اس سے تعلق رکھنا جائز ہے ؟ آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ ہم نے اسے نصیحت کی ہے لیکن وہ سمجھتا نہیں اور یہ کہتا ہے کہ وہ حق پر ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس میں کوئی شک نہیں یہ آدمی جادو گروں میں سے ہے اور یہ شیطانی عمل ہے کیونکہ یہ انسان کی طاقت اور قدرت سے باہر ہے بے شک اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور وحی تو رسولوں پر نازل ہوتی ہے اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شیطان کاہنوں کو چور کی شکل اور ان کے اوصاف اور چوری کی جگہ بتلاتا ہے اگرچہ وہ پلیٹ میں ہو یا کسی اور طریقے سے سب برابر ہے تو ان لوگوں سے سوال کرنا اور نہ ہی ان کی تصدیق کرنا جائز ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(جو کاہن کے پاس گیا اور اس نے اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کے ساتھ کفر کیا) یہ حدیث صحیح ہے اور اسے احمد ( 2 / 408) اور ابو داؤد ( 3904) اور ترمذی ( 135) اور ابن ماجہ ( 639) اور حاکم ( 1/8) نے روایت کیا ہے ۔

تو اس بنا پر اسے نماز میں امامت کے لئے آگے کرنا اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے اور نہ ہی ظاہری اور خفیہ طور پر اس کے ساتھ تعلقات رکھنے اور نہ ہی اسے تحفہ وغیرہ دینا اگرچہ اسے ضرورت بھی ہو پھر بھی جائز نہیں حتی کہ توبہ کرے ۔

واللہ اعلم

اور اللہ تعالی زیادہ جانتا ہے ۔ .

ماخذ: دیکھیں کتاب : اللولوالمکین من فتاوی ابن جبرین ص 19