منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

صرف كھيلوں كے چينل كى شراكت

82718

تاریخ اشاعت : 09-11-2007

مشاہدات : 5080

سوال

كھيلوں كے ليے مخصوص چينل گھروں ميں ديكھنے كا حكم كيا ہے، اس ليے كہ ميں كيفے ميں نہيں جانا چاہتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارے عزيز بھائى جو بھى آپ كا سوال پڑھےگا وہ اس يہ سمجھےگا كہ آپ دو كاموں سے ايك ضرور كرينگے: يا تو آپ كيفے جا كر كھيلوں كا مشاہدہ كرينگے، يا پھر گھر ميں، اور بالكل كھيل نہ ديكھنے والى سوچ آپ كے پاس ہے ہى نہيں، جو بہت زيادہ افسوس كا باعث ہے، كہ اس امت كے نوجوان ميچ ديكھنے ميں مشغول ہوں، اور كھيل كى ٹيم كا دھيان ركھتے رہيں، اور لہو و لعب ميں مشغول، اور غفلت ميں ڈوبے ہوئے افراد كى تعظيم كرتے پھريں، اس دوران امت مسلمہ كئى ايك ناحيہ سے دوسرى قوموں سے پيچھے رہتى جائے.

يہ مسلك اور راہ كئى ايك اسباب كا نتيجہ ہے:

اول:

عمر اور وقت كى قيمت كا ادراك نہ ہونا، اور اگر انسان اپنے وقت اور عمر كى اہميت كا ادراك كر لے تو وہ اسے بغير كسى فائدہ كے كاموں ميں ضائع نہ كرتا پھرے.

دوم:

علم يا ہنر يا تجارت كے علاوہ كسى غير فائدہ چيز ميں مشغول رہنا بلكہ بہت سے طالب علم تو يہ خيال كرتے ہيں كہ اگر اس نے اپنے اسباق دہرا ليے تو اس نے فرض ادا كر ليا ہے، حالانكہ اس سے ـ دوسرے مكلف كى طرح ـ بہت كچھ فوت ہو رہا ہے، اسے چاہيے كہ وہ خير و بھلائى كے كاموں ميں بڑھ چڑھ كر حصہ لے، اور اپنے اعمالنامہ كو نيكيوں سے بھر لے، بلكہ يہ چيز تو اس كے ليے ضرورى ہے، كيونكہ وہ جوانى اور قوت اور فارغ البالى كى عمر ميں ہے.

سوم:

اچھى صحبت اور ساتھيوں كا نہ ہونا جو نيكى و اللہ كى اطاعت ميں اس كى معاونت كريں.

غفلت كے اسباب ميں سے سب سے اہم اسباب يہ ہيں، اور جو شخص وقت گزرنے سے قبل ان اسباب كا علاج اور اس كے تدارك كى كوشش كرتا ہے وہ كامياب ہے، اور اسے توفيق بخشى گئى ہے.

دوم:

آپ كو چاہيے كہ اپنے نفس سے چند ايك سوالات كريں جو آپ كو اس مسئلہ ميں صحيح موقف اختيار كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوں اور ان سوالات ميں چند ايك سوال درج ذيل ہيں:

1 - اگر آپ كھيل اور ميچ نہ ديكھيں گے تو كيا ہے ؟

تو كيا ہو گا ؟ كيا تنگى اكتاہٹ حاصل ہو گى ؟

كب تك حسرت ہو گى ؟

ايك يا دو دن، اور پھر نفس مطمئنہ قوى ہو جائيگا، اور نفس امارہ جو برائى كى دعوت ديتا تھا وہ كمزور اور ضعيف ہو كر رہ جائيگا، تو آپ كے ايام بہتر اور اچھے بسر ہونگے، اور ايمان كى غذا علم و عمل اور اطاعت و فرمانبردارى اور ذكر اذكار جتنے زيادہ ہونگے اتنى ہى ايمان كى مٹھاس بھى زيادہ ہو جائيگى، اور نفس ميں وحشت ہوتى ہے اسے صرف اللہ كا ذكر ہى ختم كر سكتا ہے، اور نفس پياسا ہوتا ہے جسے صرف اللہ سے تعلق مضبوط كرنا ہى سير كر سكتا ہے.

2 - سالہا سال سے يہ كھيل اور ميچ ديكھنے كا فائدہ كيا ہوا ؟

تفريح، كھيل كو اچھى طرح سمجھنا، وقت ضائع كرنا، ساتھيوں كے مصاحبت، پھر كيا ؟

كيا كوئى عقلمند مسلمان شخص ان اہداف كو حاصل كرنے كى جدوجھد كرتا ہے ؟ !

رہى تفريح تو يہ بہت ہى جلد ختم ہو جانے والى ہے، اور صرف وقت ضائع كرنے كى ندامت و حسرت اور افسوس ہى باقى رہ جائيگا.

اور رہا كھيل كو اچھى طرح سمجھ لينا، تو اس دعوى كى كوئى حقيقت نہيں، اس سے قبل جو ميچ آپ ديكھ چكے ہيں، اس نے آپ كو كتنا فائدہ ديا، اور آپ كے علاوہ دوسروں كو كتنا فائدہ ديا، اور كيا آپ كو يہ شرف حاصل ہو گيا ہے كہ آپ اللہ تعالى كے ہاں ايك كھلاڑى كى حيثيت سے لكھ ديے گئے ہيں ؟ !

اور رہا مسئلہ وقت قتل كرنے كا، تو يہ وقت كب سے آپ كا دشمن بن گيا ہے كہ آپ اسے قتل كرنے كى كوشش ميں لگے ہوئے ہيں ؟!

حالانكہ وقت تو آپ كى سانسيں ہيں، اور يہ وقت آپ كى عمر ہے، اور يہ آپ كى زندگى كے لحظات ہيں، آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ اس وقت كو كئى ہزار اور كئى ملين نيكيوں سے بھر ليں.

اور اس كے ليے آپ كو يہى كلمہ كہنا كافى ہے: سبحان اللہ و بحمدہ ايك بار كہنے سے آپ كے ليے جنت ميں ايك كھجور كا درخت لگا ديا جائيگا، تو آپ اس طرح كتنے ہى باغ ضائع كر بيٹھے، اور كتنى نيكياں آپ نے فضول ميں ہى ضائع كر ديں ؟!

اور رہا مسئلہ ساتھيوں اور دوستوں كے ساتھ رہنا: تو ذرا آپ اپنے دوست و احباب كو تلاش كريں، اور ان ميں نظر دوڑائيں كہ ان ميں سے كون ہے جو آپ كے ساتھ آپ كى قبر ميں داخل ہو گا ؟!

كون ہے جو روز محشر ميں آپ كى مدد كريگا ؟!

حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى تو يہ فرما رہے ہيں:

اس روز ايك دوسرے كے جگرى دوست بھى آپس ميں ايك دوسرے كے دشمن بن جائينگے، ليكن متقى نہيں الزخرف ( 67 ).

اور دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

جس دن آدمى اپنے بھائى، اور اپنى ماں، اور اپنے باپ اور اپنى بيوى، اور اپنى اولاد سے دور بھاگے گا، ان ميں سے ہر ايك كى ايسى حالت ہو گى جو اس كے ليے كافى ہو گى عبس ( 34 - 37 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت اس طرح فرماتے ہيں:

اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں كو كاٹ كھائيگا، اور كہےگا ہائےافسوس كاش ميں رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى راہ اختيار كى ہوتى، ہائے افسوس كاش ميں نے فلاں كو دوست نہ بنايا ہوتا، ميرے پاس نصيحت پہنچ جانے كے بعد اس نے تو مجھے گمراہ كر ديا، اور شيطان تو انسان كو دھوكہ دينے اور ذليل كرنے والا ہے الفرقان ( 27 - 29 ).

3 - كيا ميچ ديكھنے، اور كھيلوں كے خاص چينل ديكھنے ميں حرام كے ارتكاب سے چھٹكارا رہتا ہے ؟ جيسا كہ نفس امارہ اس كا دعوى كرتا ہے يا كہ اناونسر لڑكى كو ديكھ كر آپ كے دل ميں حرام رچ بس گيا ہے، يا پھر كھلاڑى لڑكيوں كو ديكھ كر حرام كام آپ كے دل ميں گھر كر گيا ہے ؟

يا كيمرہ مينوں كے بار بار كسى لڑكى پر كيمرہ فٹ كرنے سے حرام كام آپ كے دل ميں داخل ہو چكا ہے ؟

انسان اپنے نفس سے دھوكہ مت كھائے، اور پھر ايك گھنٹے كے بعد دوسرا گھنٹہ بغير كسى فائدہ كے ضائع ہوتا ہے، كيا آپ كو اس كے ساتھ اللہ سے شرم و حياء نہيں آتى ؟

كيا آپ اس سے اٹھ كر دور نہيں جا سكتے، حالانكہ آپ كا دل اس كے اندھيرے كى بنا پر اور اللہ تعالى كے ذكر سے خالى ہونے كى وجہ سے شكوہ نہيں كر رہا ؟

آپ ان كھلاڑيوں كے نام ياد كر كے ان كے پيچھے بھاگتے پھرتے ہيں، اور ان كى ٹيموں اور كلبوں كى بنا پر تعصب ميں پڑے ہوئے ہيں، اور ان كى خبريں تلاش كرتے ہيں، اور پھر ان ميں سے بعض كھلاڑى تو اللہ تعالى پر ايمان ہى نہيں ركھتے، كيا آپ كو اس سے شرم نہيں آتى ؟

اگر آپ سے صحابہ كرام كى سيرت كے متعلق سوال كر ليا جائے تو آپ اس كا جواب ہى نہ دے سكيں، تو كتنى بڑى مصيبت كا شكار ہيں! اور كتنى بڑى آزمائش ميں مبتلا ہيں!

اور پھر كيا آپ اپنے نفس سے پرامن ہيں كہ آپ صرف يہى چينل ديكھتے رہينگے، اور آہستہ آہستہ شيطان آپ كو دوسرے چينلوں كى طرف نہيں لے جائيگا، اور آپ ان كا مشاہدہ نہيں كرينگے ؟

حالات اور مشاہدات آپ كو بتاتے ہيں كہ شيطان نے كتے لوگوں كے ساتھ يہ كھيل كھيلا، جب انہوں نے شيطان كى چال كى پيروى كى، اور شيطان نے انہيں صرف كھيلوں كے چينل ہى ديكھنے كو مزين كر كے ركھ ديا، پھر وہ ان كے ساتھ وعدے اور اميديں دلاتا رہا حتى كہ وہ ہر چيز ديكھنے لگے، تو آپ ان كى پريشانى اور ان كے ضائع ہونے كے متعلق مت پوچھيں، آپ ان كے نماز روزے اور قيام كے متعلق مت پوچھيں، اور نہ ہى ان كے ورد اور ذكر كے متعلق دريافت كريں، اور پھر معصوم صرف وہى ہے جسے اللہ معصوم اور محفوظ ركھے.

اللہ كى قسم آپ اپنے نفس كا محاسبہ خود كريں، قبل اس كے كہ اللہ تعالى آپ كا محاسبہ كرے، اور آپ اپنے اعمال كا وزن كر ليں، قبل اس كے كہ آپ كےاعمال كا وزن كيا جائے، اور آپ شيطانى چالوں سے بچ كر رہيں، كيونكہ ابتدا ميں معاملہ چھوٹى چيز سے ہى شروع ہوتا ہے، اور پھر كچھ ہى دير بعد وہ پہاڑ كى مانند ہو جاتا ہے، جسے انسان اٹھانے كى استطاعت ہى نہيں ركھتا، اور جب بندے پر گناہ جمع ہو جائيں تو وہ اسے ہلاك كر كے ركھ ديتے ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو شيطان كے قدموں كى پيروى مت كرو، اور جو كوئى بھى شيطان كے قدموں كى پيروى كريگا تو شيطان اسے فحاشى اور برائى كا ہى حكم دےگا النور ( 21 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم چھوٹے اور حقيرگناہوں سے بچو، كيونكہ وہ آدمى پر جمع ہو كر اسے ہلاك كر ڈالتے ہيں "

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے مثال بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" جس طرح ايك قوم كھلے ميدان ميں پڑاؤ كرے، اور قوم كے كام كا وقت آيا تو ہر شخص جا كر ايك لكڑى لايا حتى كہ انہوں نے بہت بڑا ڈھير جمع كر ليا، اور اسے آگ لگا دى، اور اس ميں جو كچھ جمع كيا تھا اسے خاكستر كر كے ركھ ديا "

اسے امام احمد نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2687 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے ميرے عزيز بھائى ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اس كى اطاعت و فرمانبردارى پر ثابت قدم رہيں اور اللہ كى معصيت و نافرمانى سے اجتناب كريں، اور ان چينلوں سے بچ كر دور رہيں جن ميں اگر حرام كے ارتكاب سے ہو سكتا ہے بچاؤ رہے، ليكن آپ ايك اجر عظيم اور ثواب سے محروم ہو جائينگے، اور آپ بلند اور اعلى مرتبہ اور درجہ سے اتر كر نيچے آ جائينگے.

اور آپ ابن قيم رحمہ اللہ كے درج ذيل قول سے عبرت حاصل كريں جو انہوں نے اپنے متعلق كہا ہے، وہ بيان كرتے ہيں:

" ايك روز مجھے شيخ الاسلام ابن تيميہ قدس اللہ روحہ نے كسى مباح چيز كے متعلق فرمايا:

يہ اعلى مراتب كے منافى ہے، چاہے نجات اور كاميابى كے ليے اسے ترك كرنے كى شرط نہيں، يا اس طرح كى اور كلام كہى، تو ايك عارف شخص اپنى حفاظت و بچاؤ كے ليے بہت سارى مباح اشياء بھى ترك كر ديتا ہے، اور خاص كر جب يہ مباح چيز حلال و حرام كى مابين برزخ ہو " انتہى.

ماخوذ از: مدارج السالكين ( 2 / 26 ).

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے توفيق اور سيدھى راہ كى راہنمائى كى درخواست كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب