بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

نجومیوں کے پاس جانے اور ان کی بات ماننے کا حکم

سوال

کیا نجومیوں کے پاس جانا اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ سنن نسائی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو بھی ان کے پاس آتا ہے اور ان کی باتوں کو مانتا ہے تو اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے ہمیں واضح کر کے بتلائیں اور علمائے کرام کے موقف بھی واضح کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس عمل کی حرمت کے لیے متعدد روایات ثابت ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

سیدہ صفیہ بنت ابو عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی نجومی کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کر دی تو اس کی 40 دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی) اس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (پرندوں کی آوازوں، ناموں اور انہیں اڑا کر بد فالی لینا، بد شگونی لینا، اور کنکریاں پھینک کر فال نکالنا غیر اللہ کی بندگی میں شامل ہے) اس حدیث کو ابو داود نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
نیز امام ابو داود کہتے ہیں: پرندوں کی آوازوں، ناموں اور انہیں اڑا کر بد فالی لینا، ریت میں زائچے بنانا، اور پرندوں کو اڑا کر قسمت کا حال جاننا ، یعنی پرندہ اڑانے سے اگر دائیں جانب جائے تو نیک فال لینا، اور اگر بائیں جانے جائے تو بد شگونی لینا! علامہ جوہریؒ کہتے ہیں: لفظ "جبت" صنم، کاہن، جادوگر اور نجومی وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص تاروں سے کوئی علم حاصل کرے تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا، جس قدر تاروں سے علم حاصل کرے گا اتنا ہی جادو حاصل کرتا جائے گا۔) اس حدیث کو ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: میں دورِ جاہلیت سے ابھی حال ہی میں نکلا ہو، اللہ تعالی نے اسلام کا بول بالا فرما دیا ہے، ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے، تو ہم کیا کریں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم ان کے پاس نہ جایا کرو)
میں نے کہا: کچھ لوگ پرندے اڑا کر فال لیتے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پرندہ اڑنے سے فال نہیں نکلتی۔ یہ تو ان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں، ان کی ایسی باتیں مت مانو) مسلم

ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، اور کاہنوں کی مٹھائی کھانے سے منع فرمایا۔) بخاری، مسلم

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کبھی کبھار وہ بات کرتے ہیں تو بعینہٖ رونما ہو جاتی ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ وہ حق بات ہوتی ہے جو جن اچک لیتا ہے اور اسے اپنے کاہن دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے، اور پھر وہ اس میں 100 جھوٹ شامل کر دیتے ہیں۔) بخاری، مسلم

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کاہن کے پاس آ کر اس کی بات مانتا ہے، یا اپنی بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ وحی سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔) اسے ابو داود نے روایت کیا ہے۔

علمائے کرام کہتے ہیں کہ : احادیث میں مذکور تمام امور سے دور رہنا ضروری ہے، چنانچہ ان لوگوں کی طرف جانا، ان کی تصدیق کرنا، اور ان کاموں کے لیے مال و دولت خرچ کرنا حرام ہے، اگر کوئی شخص ان کاموں میں ملوث ہو چکا ہے تو وہ جلد از جلد توبہ کر لے۔

واللہ اعلم

ماخذ: فتاوی امام نووی: (230)