الحمد للہ.
اول:
ہم آپ كى صلہ رحمى اور اپنے رشتہ داروں كى معاونت كرنے اور اس اچھے عمل پر شكريہ ادا كرتے ہوئے اللہ تعالى سے دعا گو ہيں كہ اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
دوم:
اگر انسان قرض كى ادائيگى اور وعدہ پورا كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تو حج كى ادائيگى كے ليے انسان كے ليے قرض حاصل كرنا جائز ہے، مثلا وہ تنخواہ دار ملازم ہو اور اسے علم ہو كہ اس كى تنخواہ قرض كى ادائيگى كے ليے كافى ہے، يا پھر وہ تاجر وغيرہ ہو.
" المواھب الجليل " ميں ہے:
منسك ابن جماعۃ الكبير ميں ہے كہ: اگر حج كے ليے حلال مال قرض لے اور وہ اس كى ادائيگى كر سكتا ہو، اور قرض خواہ اس پر راضى ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 531 ).
مستقل فتوى كميٹى اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھى يہى فتوى جارى كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 41 ) اور فتاوى الشيخ ابن باز ( 16 / 393 ).
چنانچہ اگر آپ ايسا كريں تو آپ جو مصلحتوں كو جمع كر لينگے، ايك تو حج بھى كر ليا، اور دوسرا اپنے بھائى كے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ كرتے ہوئے اس كے ساتھ كيا ہوا وعدہ بھى پورا كر لينگے.
سوم:
ليكن اگر آپ كو قرض دينے والا شخص نہ ملے تو پھر آپ مصلحت كو مد نظر ركھيں اور كوشش كريں كہ اہم كام پہلے كيا جائے، اور وہ مصحلت مقدم كريں جس كا دوسرى مصلحت سے مؤخر كرنا ممكن نہ ہو.
چنانچہ آپ ديكھيں كہ آيا آپ پر حج فرض ہے ؟ يا كہ فرضى حج ادا كر چكے ہيں، اور اب نفلى حج كرنا چاہتے ہيں.
اور آپ اپنے بھائى كى ضرورت كو ديكھيں كہ كيا اس كى يہ ضرورت شديد ہے يا نہيں، اور كيا اسے ايك دو ماہ تك مؤخر كيا جا سكتا ہے يا نہيں؟ اور كيا آپ اس وقت اس كى ضرورت كے ليے كچھ رقم دے سكتے ہيں اور باقى بعد ميں دے ديں ؟..... الخ.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو خير و بھلائى كى توفيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .